کورونا وبا کی دوسری لہر میں اب تک اطلاع کے مطابق اے ایم یو کے تقریبا 60 ملازمین کی اموات ہو چکی ہیں، جس میں یونیورسٹی کے موجودہ اور سبکدوش تدریسی و غیر تدریسی کے ساتھ اسکول ملازمین بھی شامل ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ سبھی کا کورونا کے سبب اے ایم یو کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج میں انتقال ہوا۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کیونکہ انتظامیہ کی جانب سے ابھی تک ملازمین اور سبکدوش کی اموات کی تفصیلات فہرست جاری نہیں کی گئی۔
ملازمین اور اے ایم یو کے اعلی عہدوں پر فائز پروفیسرز کی اموات کے دوران ہی اے ایم یو طلبہ برادری سمیت تدریسی و غیر تدریسی عملے میں اے ایم یو کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج میں لاپرواہی اور اس کی خدمات پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے۔
اے ایم یو کے ریسرچ اسکالر اور طلبہ یونین کے سابق صدر فیض الحسن نے 9 مئی کو ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اے ایم یو میں جس طرح گزشتہ 22 روز میں تقریبا 26 سے زیادہ پروفیسرز کا کورونا سے انتقال ہوگیا۔ یہ ایک بہت بڑی لاپرواہی ہے اس پر یو جی سی کو ہی نہیں بلکہ مرکزی حکومت کو بھی دیکھنا چاہیے اور سی بی آئی کی جانچ کروانی چاہئے۔
وہیں اے ایم یو کے ریٹائرڈ سینیئر پروفیسر حمید علی نے خصوصی گفتگوں میں جواہر لال نہرو میڈیکل کالج میں لاپرواہی اور اس کی خدمات پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ہمارے یہاں کے ایک پروفیسر جن کا نام فیصل تھا، جو میڈیکل کالج کی سڑک پر ہی کہتے رہے مجھے آکسیجن چاہئے اور ان کا انتقال ہوگیا۔ اب نہیں معلوم ان کی کتنی طبیعت خراب تھی اور وہ گیٹ پر کب پہنچے لیکن یہ ساری باتیں اس طرف اشارہ کرتی ہے کہ جانچ ہونی چاہئے، وہاں بہت سے سی سی ٹی وی کیمرے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جس سے یہ معلوم چلے کہ وہاں کون لوگ موجود تھے اور کیسی دیکھ بھال ہوئی۔ اگر اس میں کوئی کمی تھی تو وہ دور کی جائے تاکہ آگے کے لئے فائدہ ہو کیونکہ ابھی بھی کہا جا رہا ہے کورونا کی تیسری لہر آئے گی تو پھر اس طرح کی کوئی پریشانی نا آجائے۔
اے ایم یو کے ریٹائرڈ پروفیسر عارف الاسلام نے کہا اے ایم یو کے جواہر لال نہرو میڈیکل کالج کا ایک اچھا رتبہ تھا پہلے، جو اب نہیں رہا۔ یونیورسٹی انتظامیہ کو ایک فہرست نکالنی چاہئے۔ کتنے ملازمین کی اور کن وجوہات سے اموات ہوئی کیونکہ یونیورسٹی انتظامیہ پر، میڈیکل کالج پر، ڈاکٹروں پر الظامات لگ رہے ہیں۔ اس پر ایک جیوڈیشل انکیوئری ہو جو واضح کردیں کہ پورا معاملہ کیا تھا۔
ریٹائرڈ پروفیسر عارف الاسلام نے مزید کہا کہ جو پرمانینٹ ملازم ہوتے ہیں، انہیں نوکری اور پینشن وغیرہ مل جاتی ہیں لیکن جو عارضی ملازم تھے، جیسے فرقان سمبالی، اسی طرح بہت سے ملازمین تھے جن کی موت کورونا سے اور میڈیکل کالج میں ہوئی ہیں، ان کو 50 لاکھ کا معاوضہ اور خاندان کے کسی ممبر کو ملازمت ملنی چاہئے۔