بھارت میں سنہ 1997 میں ایک غیر سرکاری تنظیم 'اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن' نے علامہ اقبال کے یوم پیدائش کو یوم اردو کے طور پر منانے کا آغاز کیا تھا۔
ڈاکٹر محمد اقبال کی پیدائش 9 نومبر 1877 کو پاکستان کے سیالکوٹ میں ہوئی جو اس وقت بھارت کا حصہ تھا۔ ان کے والد کا نام نور محمد تھا۔ ان کا تعلق کشمیری پنڈت گھرانے سے تھا۔
بانی علی گڑھ سرسید احمد خان کے پوتے سر راس مسعود سے علامہ اقبال کے گہرے مراسم تھے۔ اقبال اور سر راس مسعود آپس میں اچھے دوست تھے، جن کے مابین خطوط کا بھی سلسلہ رہا ہے۔
علامہ اقبال کی پیدائش سے دو سال قبل علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد پڑ چکی تھی، یہ وہ زمانہ تھا جب اردو زبان جدید اردو کے مرحلے میں تھی۔ سنہ 1857 کے غدر کے بعد بھارت کی نشاۃ ثانیہ کے ساتھ ساتھ اردو زبان کی تاریخ کا بھی نیا دور شروع ہوتا ہے۔
جدید اردو کے آغاز میں سرسید احمد خان کا اہم کردار رہا ہے، ان کے مضامین کے ساتھ آسان اردو کا آغاز ہوتا ہے۔ یہی دور جب آگے بڑھتا ہے تو علامہ اقبال جیسے شہرہ آفاق شاعر کی پیدائش ہوتی ہے۔ جنہوں نے سرسید کی روایت کو بھی آگے بڑھایا۔
تاریخ کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ علامہ اقبال اپنے بچپن کے زمانے میں لاہور کے کسی ادبی جلسہ میں شریک ہوئے تھے جس میں سرسید احمد خان بنفس نفیس موجود تھے، اس بات کا ذکر علامہ کے کسی خطوط میں بھی ملتا ہے۔
علامہ اقبال نے راس مسعود کے نام ایک خط میں لکھا ہے کہ 'میں نے خواب میں آپ کے دادا کا دیدار کیا ہے' اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ انہوں نے بچپن میں سرسید کو دیکھا ہے۔ کیوں کہ خواب میں وہی چہرہ نظر آتا ہے جو انسان کے شعور یا لا شعور میں موجود ہوتا ہے۔
علامہ اقبال کی ایک نظم بھی ہے جو علی گڑھ کے طلبا کے نام سے موسوم ہے۔ جس کا نام 'طلباء علی گڑھ' ہے۔ جس میں انہوں نے طلبا کے نام پیغام دیا ہے کہ طلبہ شور شرابوں، ہنگاموں سے دور رہیں، صرف پڑھائی پر توجہ دیں۔
اے ایم یو اردو اکیڈمی کے ڈائریکٹر ڈاکٹر راحت ابراہیم نے بتایا علامہ اقبال اپنی حیات میں پانچ مرتبہ علی گڑھ تشریف لائے۔ وہ بتاتے ہیں کہ انہیں 1909 کی لاہور کے کسی جلسہ کی اقبال کی ایک تصویر ملی ہے، جیسا کہ ظاہر ہے کہ سنہ 1909 میں علی گڑھ مسلم بنانے کے تحریک چل رہی تھی، گویا اقبال علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے بنیاد گزاروں میں شمار کیے جا سکتے ہیں جن کا اہم کردار رہا ہے علی گڑھ کے بننے میں۔
ڈاکٹر راحت ابراہیم بتاتے ہیں کہ یونیورسٹی ایکٹ بنانے کے لیے ایک کانسٹی ٹیوشن کمیٹی بنائی گئی اس میں بھی علامہ اقبال رکن تھے۔ اس کے علاوہ لکھنؤ میں یونیورسٹی کے دستور کو لے کر ایک جلسہ ہوا تھا اقبال اس میں بھی شریک تھے۔
مزید پڑھیے: علامہ اقبال کی نظم 'مسجد قرطبہ' اسلامی تاریخ و تہذیب کا نچوڑ
ڈاکٹر راحت ابراہیم بتاتے ہیں کہ 24 اپریل 1929 کو علامہ اقبال کا طلبہ یونین کی جانب سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں زبردست استقبال کیا گیا تھا۔ 23 دسمبر 1934 کو اے ایم یو نے اقبال کو سب سے بڑی ڈگری ڈاکٹر آف لٹریچر سے نوازا ہے۔
شعبہ اردو کے استاذ پروفیسر سراج اجملی بتاتے ہیں کہ اقبال کے ذاتی مراسم سر راس مسعود سے ذاتی مراسم تھے۔ اقبال نے راس مسعود کے انتقال پر ایک 'مسعود مرحوم' کے عنوان سے بہت جذباتی نظم بھی کہی ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں جس طرح سرسید مسلمانوں کے ارتقائے ذہن کے لیے کوشاں تھے اسی طرح اقبال بھی ان کی فکر سے متاثر تھے وہ بھی مسلمانوں کے ذہنی ارتقا کے لیے بہت کوشاں تھے۔