پریاگ راج: الہ آباد ہائی کورٹ نے گیانواپی شرینگر گوری کی باقاعدہ پوجا کے حق سے متعلق اپنے فیصلے میں کہا کہ فی الحال سال میں ایک بار پوجا کی اجازت ہے۔ جب سال میں ایک بار کی عبادت سے مسجد کے کردار کو کوئی خطرہ نہیں تو روزانہ یا ہفتہ وار عبادت مسجد کے کردار کو کیسے بدل سکتی ہے؟ الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ سال 1990 تک شرینگر گوری، ہنومان اور گنیش کی روزانہ پوجا کی جاتی تھی۔ بعد میں اگر سال میں ایک بار عبادت کی اجازت دی جائے، تو حکومت یا مقامی انتظامیہ ضابطے کے ذریعے باقاعدہ عبادت کا انتظام کر سکتی ہے۔ اس کا قانون سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ انتظامیہ اور حکومت کی سطح تک کا معاملہ ہے۔ ہائی کورٹ نے شرنگر گوری کی باقاعدہ پوجا کے حقوق کے معاملے میں ضلعی عدالت کے حکم کو برقرار رکھا ہے۔
جسٹس جے جے منیر نے کہا کہ انجمن انتظامیہ مسجد کمیٹی اسے وقف جائیداد کہہ رہی ہے۔ ہندو جماعتیں وقف املاک کے حوالے کرنے یا اپنے دیوانی مقدمے میں ملکیت لینے کی بات نہیں کر رہی ہیں۔ ایسے میں یہ معاملہ صرف شرنگر گوری کی باقاعدہ پوجا کے حق سے متعلق ہے۔ اس معاملے میں وقف ایکٹ 1995 کی دفعہ 85 لاگو نہیں ہوتی ہے۔ عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ 1993 میں ہندو برادری کی جانب سے شرنگر گوری کی پوجا روکنے کے بعد کئی سالوں تک اس پوجا کے لیے قانونی اقدامات نہیں کیے گئے۔ پھر 2021 میں ہندو جماعتوں کو پوجا کرنے سے روک دیا گیا۔ اس سے ان کے روزمرہ کی عبادت کے حق کا مطالبہ ختم نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیں:۔ Gyanvapi Case گیانواپی کیس کے چیف ایڈوکیٹ جتیندر سنگھ بسن نے خود کو تمام مقدمات سے دستبردار کر لیا
حد بندی ایکٹ یعنی عبادت گاہوں کا ایکٹ 1991 اس پر لاگو نہیں ہوتا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ہندو فریق متنازعہ جائیداد پر شرنگر گوری، بھگوان گنیش اور ہنومان جی کی پوجا کرنے کا حق مانگ رہا ہے۔ اس لیے سول کورٹ کو اس معاملے کا فیصلہ کرنے کا حق حاصل ہے۔ عدالت نے مزید کہا کہ درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ 15 اگست 1947 سے 1993 تک یہاں باقاعدہ عبادت ہوتی تھی۔ جب 1993 میں تنازعہ بڑھ گیا تو ریاست اتر پردیش کے ضابطے کے تحت سال میں ایک بار عبادت کی اجازت دی گئی۔ اس لیے عبادت گاہوں (خصوصی دفعات) ایکٹ 1991 کے تحت عبادت پر پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔