ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران آل انڈیا مسلم خواتین پرسنل لا بورڈ کی صدر شائستہ عنبر نے کہا کہ، 'ہم حکومت کے اس بل کا خیر مقدم کرتے ہیں۔'
انہوں نے بتایا کہ، '18 سال کی عمر شادی جیسی بڑی ذمہ داری کے لئے مناسب نہیں ہے۔'
شائستہ عنبر نے کہا کہ، 'اگر 21 سال کی عمر میں شادی ہوگی تو لڑکیوں کی تعلیم و تربیت، خود فیصلہ لینے کی صلاحیت ہو جائے گی۔ اس سے یہ فائدہ ہوگا کہ لڑکیاں جب اپنے سسرال میں رہیں گی تو انہیں اپنی ذمہ داری، حقوق اور فرائض انجام دینے میں آسانی ہوگی۔ 21 سال کی عمر میں لڑکیاں اپنی تعلیم مکمل کرکے اپنا مستقبل بنا سکتی ہیں اور اپنے بچوں کا بھی مستقبل روشن کر سکتی ہیں۔'
ٹی وی اداکارہ و کلاسیک ڈانسر فرحانہ فاطمہ نے کہا کہ، 'حکومت کا یہ قدم بہتر ہے، لیکن میرا ماننا ہے کہ سرکار کو چاہیے کہ وہ پہلے تعلیم کے شعبہ میں ایسی پالیسی بنائے، جس سے سماج کے ہر طبقے کی لڑکیاں اعلی تعلیم حاصل کر سکیں اور اپنا مستقبل بنا سکیں۔'
انہوں نے کہا کہ، '18 سال کی عمر میں شادی کا مطلب یہ ہے کہ کبھی کبھار والدین کا لڑکیوں پر اتنا دباؤ ہوتا ہے کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی تعلیم اور مستقبل کو نظرانداز کر کے شادی کر لیتی ہیں۔ اسے ہی کہتے ہیں 'مجبوری میں لیا گیا فیصلہ' لہذا 21 سال کی عمر شادی کے لئے بہتر ثابت ہوگی۔'
نوونشکا فاؤنڈیشن و خواتین یوتھ ونگ صدر ریتو تیاگی نے بات چیت کے دوران کہا کہ، '18 سال کی عمر شادی کے لئے 'کچی عمر' مانی جاتی ہے۔ 21 سال کی عمر میں لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ان کا جسم بھی شادی کے لئے تیار ہو جاتا ہے۔ لہذا سرکار کے اس قدم کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔
بھارتی سماج میں مانا جاتا ہے کہ اگر زیادہ عمر میں لڑکیوں کی شادی ہو گی، تو ان کے بہکنے کا ڈر رہے گا کیونکہ لڑکیوں کو سماج اپنی اور گھر کی عزت کے طور پر دیکھتا ہے۔'
اس کے جواب میں ریتو تیاگی نے کہا کہ، 'چونکہ ہمارے سماج میں مرد کا بول بالا رہا ہے، یہاں پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑکیوں پر الزام عائد کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں اس سوچ سے آگے بڑھ کر سرکار کے اس فیصلے کا خیرمقدم کرنا چاہئے کیونکہ یہ لڑکیوں کے لئے بہتر ہوگا۔'
مزید پڑھیں:
دربھنگہ: کوشیسور استھان اسمبلی حلقہ کے مسائل اور عوام کی امیدیں
قابل ذکر ہے کہ 1929 میں شاردا کمیشن کی سفارش پر لڑکیوں کی شادی کی عمر 14 سال اور لڑکوں کی 18 سال کر دیا گیا تھا۔ اس 1978 میں ترمیم کر کے لڑکیوں کی عمر 18 اور لڑکوں کے شادی کی عمر 21 سال کر دیا گیا، جو آج بھی چل رہا ہے۔
مرکزی حکومت صرف لڑکیوں کی شادی کی عمر میں ترمیم کر کے 18 برس سے 21 کرنا چاہتی ہے۔ سرکار اسی مانسون اجلاس میں یہ مدہ اٹھائے گی۔ اگر یہ قانون بن گیا تو سرکار ایک طرف لڑکیوں کے تعلیم و روزگار کے مواقع فراہم کروانے کی بات کرے گی، وہیں اس سے ایک بڑا مسئلہ یہ حل ہو گا کہ "بھارت کی بڑھتی آبادی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔"
موجودہ وقت کی بات کریں تو ابھی بھی سماج کے کچھ طبقوں میں کم عمر میں شادی اور پھر جلدی بچے پیدا ہو جاتے ہیں، جو کسی بھی سرکار کے لۓ بڑا مسئلہ ہوتا ہے۔