آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ 1991 میں بابری مسجد تنازعہ کے درمیان پارلیمینٹ نے منظور کیا تھا کہ بابری مسجد کے علاوہ تمام عبادت گاہیں ۱۹۴۷ء میں جس طرح تھیں. ان کو اسی طرح رکھا جائے گا اور اس کے خلاف کوئی نزاع معتبر نہیں ہوگ. پھر بابری مسجد کے مقدمہ کے فیصلہ میں بھی سپریم کورٹ نے مذہبی مقامات سے متعلق 1991 کے قانون کی توثیق کی اور اس کو واجب العمل قراردیا. مگر اس کے باوجود جو لوگ ملک میں منافرت قائم رکھنا چاہتے ہیں اور جن کو اس ملک کا اتحاد گوارا نہیں ہے. All India Muslim Personal Law Board Reaction ON Varanasi Judge Court Verdict
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے جنرل سیکریٹری نے کہا کہ بنارس کی گیان واپی مسجد کا مسئلہ اٹھایا اور افسوس کہ مقامی ضلع جج کورٹ نے 1991 کے قانون کو نظرانداز کرتے ہوئے درخواست قبول کرلی اور اب یہ تکلیف دہ مرحلہ بھی سامنے آرہا ہے کہ کورٹ نے ابتدائی طور پر ہندوانتہاپسند گروپ کے اس دعویٰ کو قبول کرلیا اور ان کے لئے راستہ آسان بنادیا ہے، یہ ملک و قوم کےلئے تکلیف دہ بات ہے۔اس سے ملک کا اتحاد متأثر ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں:Gyanvapi Masjid Case گیان واپی کیس کی تفصیلات، جانیں اب تک کیا ہوا؟
انہوں نے کہاکہ قومی ہم آہنگی کو نقصان پہنچے گا۔انتہاپسندی اور تشدد کو تقویت پہنچے گی اور شہرشہر تصادم کی شکل پیدا ہوجائے گی، حکومت کو چاہئے کہ پوری قوت کے ساتھ 1991ء کے اس قانون کو نافذ کرے، تمام فریقوں کو اس پر قائم رہنے کی پابند بنائے اور ایسی صورت حال پیدا نہ ہونے دے کہ اقلیتیں انصاف سے مایوس ہوجائیں اور محسوس کریں کہ ان کے لئے انصاف کے تمام دروازے بند کر دئے گئے.