شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کاروائی کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں 7 عرضیاں داخل کی گئی تھیں، ہائی کورٹ نے ان عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔
اس ضمن میں داخل مفاد عامہ کی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گوند ماتھر اور جسٹس سدھارتھ ورما کی بینچ نے اپنے فیصلے میں ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ ابھی تک کتنی شکایتیں درج کی گئی ہیں؟ کتنے لوگوں کی اموات ہوئی ہیں؟ اور کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں؟ ساتھ ہی عدالت نے ہلاک شدگان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی طلب کی ہے، عدالت نے ریاستی حکومت کو 17 فروری تک جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔
پولیس کاوارئی کے خلاف دائر عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مظاہرین پر پولیس کے مبینہ تشدد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا ایس آئی ٹی کے ذریعے اس معاملے کی جانچ کرائی جائے۔
عرضی کے مطابق پولیس نے مظاہرین کے خلاف پر تشدد رویہ اختیار کیا ہے جس کی رپورٹ بیرون ممالک میڈیا میں شائع ہوئی ہے اور اس سے بھارت کی شبیہ کو نقصان پہنچا ہے۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، میرٹھ اور دیگر شہروں میں پولیس کے تشدد کے خلاف شکایتوں کی انکوائری کروا کے ان کے خلاف کاروائی کرائی جائے۔
عرضی گذاروں کی جانب سے سینیئر وکیل محمود پراچہ، ایس ایف نقوی سمیت کئی دیگر وکلاء نے عدالت میں بحث کی، وہیں ریاستی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل منیش گوئل اور مرکزی حکومت کی جانب سے سبھا جیت سنگھ عدالت میں پیش ہوئے۔
واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران اتر پردیش میں سب سے زیادہ تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں تقریباً 23 مظاہرین ہلاک اور کثیر تعداد میں مظاہرین زخمی ہوئے تھے۔