ETV Bharat / state

سی اے اے احتجاج: پولیس کی کاروائی پر الہ آباد ہائی کورٹ سخت، حکومت سے جواب طلب - شہریت ترمیمی قانون

اترپردیش میں گذشتہ برس دسمبر میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کاروائی کے خلاف دائر عرضی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اتر پردیش حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

الہ آباد ہائی کورٹ سخت
الہ آباد ہائی کورٹ سخت
author img

By

Published : Jan 27, 2020, 11:36 PM IST

Updated : Feb 28, 2020, 5:10 AM IST

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کاروائی کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں 7 عرضیاں داخل کی گئی تھیں، ہائی کورٹ نے ان عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

اس ضمن میں داخل مفاد عامہ کی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گوند ماتھر اور جسٹس سدھارتھ ورما کی بینچ نے اپنے فیصلے میں ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ ابھی تک کتنی شکایتیں درج کی گئی ہیں؟ کتنے لوگوں کی اموات ہوئی ہیں؟ اور کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں؟ ساتھ ہی عدالت نے ہلاک شدگان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی طلب کی ہے، عدالت نے ریاستی حکومت کو 17 فروری تک جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔

پولیس کاوارئی کے خلاف دائر عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مظاہرین پر پولیس کے مبینہ تشدد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا ایس آئی ٹی کے ذریعے اس معاملے کی جانچ کرائی جائے۔

عرضی کے مطابق پولیس نے مظاہرین کے خلاف پر تشدد رویہ اختیار کیا ہے جس کی رپورٹ بیرون ممالک میڈیا میں شائع ہوئی ہے اور اس سے بھارت کی شبیہ کو نقصان پہنچا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، میرٹھ اور دیگر شہروں میں پولیس کے تشدد کے خلاف شکایتوں کی انکوائری کروا کے ان کے خلاف کاروائی کرائی جائے۔

عرضی گذاروں کی جانب سے سینیئر وکیل محمود پراچہ، ایس ایف نقوی سمیت کئی دیگر وکلاء نے عدالت میں بحث کی، وہیں ریاستی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل منیش گوئل اور مرکزی حکومت کی جانب سے سبھا جیت سنگھ عدالت میں پیش ہوئے۔

واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران اتر پردیش میں سب سے زیادہ تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں تقریباً 23 مظاہرین ہلاک اور کثیر تعداد میں مظاہرین زخمی ہوئے تھے۔

شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کاروائی کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں 7 عرضیاں داخل کی گئی تھیں، ہائی کورٹ نے ان عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

اس ضمن میں داخل مفاد عامہ کی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گوند ماتھر اور جسٹس سدھارتھ ورما کی بینچ نے اپنے فیصلے میں ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ ابھی تک کتنی شکایتیں درج کی گئی ہیں؟ کتنے لوگوں کی اموات ہوئی ہیں؟ اور کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں؟ ساتھ ہی عدالت نے ہلاک شدگان کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی طلب کی ہے، عدالت نے ریاستی حکومت کو 17 فروری تک جواب داخل کرنے کا حکم دیا ہے۔

پولیس کاوارئی کے خلاف دائر عرضی میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ مظاہرین پر پولیس کے مبینہ تشدد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا ایس آئی ٹی کے ذریعے اس معاملے کی جانچ کرائی جائے۔

عرضی کے مطابق پولیس نے مظاہرین کے خلاف پر تشدد رویہ اختیار کیا ہے جس کی رپورٹ بیرون ممالک میڈیا میں شائع ہوئی ہے اور اس سے بھارت کی شبیہ کو نقصان پہنچا ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، میرٹھ اور دیگر شہروں میں پولیس کے تشدد کے خلاف شکایتوں کی انکوائری کروا کے ان کے خلاف کاروائی کرائی جائے۔

عرضی گذاروں کی جانب سے سینیئر وکیل محمود پراچہ، ایس ایف نقوی سمیت کئی دیگر وکلاء نے عدالت میں بحث کی، وہیں ریاستی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل منیش گوئل اور مرکزی حکومت کی جانب سے سبھا جیت سنگھ عدالت میں پیش ہوئے۔

واضح رہے کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران اتر پردیش میں سب سے زیادہ تشدد کے واقعات پیش آئے ہیں جن میں تقریباً 23 مظاہرین ہلاک اور کثیر تعداد میں مظاہرین زخمی ہوئے تھے۔

Intro:Body:

RegionalPosted at: Jan 27 2020 8:00PM



سی اے اے احتجاج: پولیس ایکشن پر الہ آباد ہائی کورٹ سخت،حکومت سے جواب طلب



پریاگ راج:27 جنوری(یواین آئی) اترپردیش میں گذشتہ ماہ دسمبر میں شہریت(ترمیمی)قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کاروائی کے خلاف داخل عرضی پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اترپردیش حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

شہریت (ترمیمی)قانون کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران پولیس کاروائی کے خلاف الہ آباد ہائی کورٹ میں 7 عرضیاں داخل کی گئی تھیں۔ کورٹ نے آج انہیں عرضیوں پر سماعت کرتے ہوئے حکومت سے جواب طلب کیا ہے۔

اس ضمن میں داخل مفاد عامہ کی عرضیوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گوند ماتھر اور جسٹس سدھارتھ ورما کی بنچ نے اپنے فیصلے میں ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا ہے کہ ابھی تک کتنی شکایتیں درج کی گئی ہیں۔ کتنے لوگوں کی اموات ہوئی ہیں اور کتنے لوگ زخمی ہوئے ہیں ساتھ ہی عدالت نے مہلوکین کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ عدالت نے ریاستی حکومت کو 17 فروری تک جواب داخل کرنے کو کہا ہے۔

عرضی میں مطالبہ کیا گیاہے کہ مظاہرین پر پولیس کے تشدد کے خلاف ایف آئی آر درج کرائی جائے اور ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج یا ایس آئی ٹی سے معاملے کی جانچ کرائی جائے۔ان کے مطابق پولیس نے مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال کیا ہے جس کی رپورٹ بیرون ممالک میڈیا میں چھپی ہے اور اس سے ہندوستان کے شبیہ کو نقصان پہنچا ہے۔علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، میرٹھ اور دیگر شہروں میں پولیس تشدد کے خلاف شکایروں کی انکوائری کرا کے ان کے خلاف کاروائی کرائی جائے۔

عرضی گذاروں کی جانب سے سینئر وکیل محمود پراچہ،ایس ایف نقوی سمیت کئی دیگر وکیلوں نے عدالت میں بحث کی وہیں ریاستی حکومت کی طرف سے اڈیشنل اڈوکیٹ جنرل منیش گوئل اور مرکزی حکومت کی جانب سے سبھا جیت سنگھ عدالت میں پیش ہوئے۔



12 دسمبر کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے سی اے اے کے پاس ہوجانے اور صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد سے ملک کے مختلف حصوں میں اس کالے قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوئے تھے اور ابھی تک جاری ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران اترپردیش میں سب سے زیادہ تشدد کے واقعات پیش آئے تھے جن میں تقریبا 23 مظاہرین کے ہلاک اور کثیر تعداد میں مظاہرین زخمی ہوئے تھے۔

یوپی میں مظاہرین کے خلاف پولیس کی کاروائی جہاں کئی طرح کے سوالات کے کھڑے کئے گئے تھے تووہیں مظاہرین کے خلاف وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ کی جانب سے استعمال کئے گئے لہجے کی بھی کافی تنقید کی گئی تھی۔

یواین آئی۔ولی


Conclusion:
Last Updated : Feb 28, 2020, 5:10 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.