پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹیاں، بہو، دو پوتیاں بھرا پورا خاندان شامل ہیں۔ واضح ہو کہ مرحوم اہل ادب کے بیچ بہت مقبول تھے اور وہ ہمیشہ لوگوں کے سکھ دکھ میں شامل ہوا کرتے تھے۔
مرحوم کا آبائی تعلق ضلع سیوان سے تھا۔ ریلوے میں انجینئر کی ملازمت کے دوران لکھنؤ اور گورکھپور قیام رہا جہاں انہوں نے اردو ادب خصوصاً بچوں کے ادب پر تخلیقی اور ادبی کارنامے انجام دیے۔
انہوں نے لکھنؤ سے نکلنے والے ماہنامہ ٹافی کی تقریباً دس سال ادارت کی۔ احمد مشکور صدیقی نے انجمن ادب اطفال اور ماہنامہ ٹافی کے ذریعے بچوں میں اردو زبان سے دلچسپی لینے میں اہم کارنامہ انجام دیا جہاں بچے نکل کر نامور ادیب اور شاعر ادب کے محافظ بنے۔
مرحوم کئی اردو کتابوں کے مصنف بھی تھے، انھیں اردو اکادمی اتر پردیش و دہلی اردو اکادمی نے کئی اعزازات سے نوازا۔
مزید پڑھیں:
آئی پی ایل کی طرز پر انڈین چیس لیگ کرانے کا فیصلہ
مولانا آزاد میموریل اکادمی کے جنرل سکریٹری ڈاکٹر عبدالقدوس ہاشمی نے ان کے انتقال کو ادب کا بڑا خسارہ قرار دیتے ہوئے مرحوم کی مغفرت اور بلند ترین درجات کے لئے عام لوگوں سے دعا کی درخواست کی ہے۔