ETV Bharat / state

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے متاثرین انصاف سے محروم

author img

By

Published : Sep 21, 2019, 7:46 PM IST

Updated : Oct 1, 2019, 12:15 PM IST

چونکہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے 11 سال مکمل ہوچکے ہیں تاہم اس انکاونٹر کے متاثرین آج بھی انصاف کی راہ تک رہے ہیں لیکن انصاف اُن سے کوسوں دور ہے۔

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے متاثرین انصاف سے محروم

سنہ 2008 کو 19 ستمبر کے روز جب دہلی میں گولیاں چلیں تو پوری دہلی دہل اٹھی تھی۔ اس انکاؤنٹر کا اثر مرکزی دارالحکومت سے ہوتے ہوئے اترپردیش کے اعظم گڑھ تک ہوا۔

19 ستمبر کو ہوئے اس انکاونٹر کو فرضی انکاونٹر کہا جاتا ہے حالانکہ اب تک یہ پوری طرح واضح نہیں کیا جاسکا ہے کہ یہ انکاونٹر فرضی تھا۔ اس انکاونٹر میں کل تین لوگوں کی جان چلی گئی تھی، جن میں دو مشتبہ انڈین مجاہدین کے رکن آصف امین اور محمد ساجد اور آپریشن کی قیادت کرنے والے انسپکٹر موہن چند شرما کو گولی لگی اور تینوں کی جان چلی گئی۔

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے متاثرین انصاف سے محروم

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں مرنے والے آصف امین اور محمد ساجد کا تعلق یو پی کے اعظم گڑھ سے تھا۔ آصف امین جامعہ ملیہ میں ماسٹرز کر رہے تھے، جبکہ محمد ساجد کی عمر محض 17 سال تھی۔

اس پورے معاملے میں اب تک کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچا جاسکا ہے چونکہ اس معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ نہیں کرائی گئی ہے۔ سنہ 2013 میں ساکیت سیشن کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس انکاونٹر کو صحیح ٹھہرا تھا۔

اترپردیش کے دارلحکومت لکھنؤ میں اس معاملے کو لیکر اجلاس ہوتے رہتے ہیں جن میں حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس سانحے کے متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن روی نائک نے بتایا کہ 'بٹلہ ہاؤس متاثرین کو آج تک انصاف نہیں ملا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سابقہ حکومت کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت بھی اس کیس کے ملزمین کو بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ کی روزانہ سماعت ہونی چاہیے تاکہ متاثرین کو جلد انصاف مل سکے۔

سابق آئی جی، ایس آر دارا پوری نے کہا کہ 'بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر فرضی تھا۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں بھی ہزاروں کی تعداد میں فرضی انکاؤنٹرز ہوئے ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'کانگریس کی حکومت رہی ہو یا موجودہ حکومت دونوں نے پولیس والوں کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی متاثرین انصاف کیلئے دربدر بھٹک رہے ہیں'۔

دارا پوری نے کہا کہ جو بھی اس فرضی انکاؤنٹر میں شامل تھے، ان آفیسرز پر سخت کاروائی ہونی چاہیے تاکہ پولیس کے اندر بھی خوف پیدا ہو اور وہ ماضی میں ایسا کام کرنے سے پرہیز کریں۔

رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ 'اگر مسلم نوجوان کسی کیس میں گرفتار کر لیے جاتے ہیں اور وہ بےگناہ بھی ہوں، تب بھی وہ کئی برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔'

انہوں نے بھی اس واقعے کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا۔

سنہ 2008 کو 19 ستمبر کے روز جب دہلی میں گولیاں چلیں تو پوری دہلی دہل اٹھی تھی۔ اس انکاؤنٹر کا اثر مرکزی دارالحکومت سے ہوتے ہوئے اترپردیش کے اعظم گڑھ تک ہوا۔

19 ستمبر کو ہوئے اس انکاونٹر کو فرضی انکاونٹر کہا جاتا ہے حالانکہ اب تک یہ پوری طرح واضح نہیں کیا جاسکا ہے کہ یہ انکاونٹر فرضی تھا۔ اس انکاونٹر میں کل تین لوگوں کی جان چلی گئی تھی، جن میں دو مشتبہ انڈین مجاہدین کے رکن آصف امین اور محمد ساجد اور آپریشن کی قیادت کرنے والے انسپکٹر موہن چند شرما کو گولی لگی اور تینوں کی جان چلی گئی۔

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے متاثرین انصاف سے محروم

بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں مرنے والے آصف امین اور محمد ساجد کا تعلق یو پی کے اعظم گڑھ سے تھا۔ آصف امین جامعہ ملیہ میں ماسٹرز کر رہے تھے، جبکہ محمد ساجد کی عمر محض 17 سال تھی۔

اس پورے معاملے میں اب تک کسی حتمی فیصلے تک نہیں پہنچا جاسکا ہے چونکہ اس معاملے کی اعلیٰ سطحی جانچ نہیں کرائی گئی ہے۔ سنہ 2013 میں ساکیت سیشن کورٹ نے اپنے فیصلے میں اس انکاونٹر کو صحیح ٹھہرا تھا۔

اترپردیش کے دارلحکومت لکھنؤ میں اس معاملے کو لیکر اجلاس ہوتے رہتے ہیں جن میں حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اس سانحے کے متاثرین کو انصاف فراہم کیا جائے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن روی نائک نے بتایا کہ 'بٹلہ ہاؤس متاثرین کو آج تک انصاف نہیں ملا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سابقہ حکومت کے ساتھ ساتھ موجودہ حکومت بھی اس کیس کے ملزمین کو بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔'

انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ کی روزانہ سماعت ہونی چاہیے تاکہ متاثرین کو جلد انصاف مل سکے۔

سابق آئی جی، ایس آر دارا پوری نے کہا کہ 'بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر فرضی تھا۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں بھی ہزاروں کی تعداد میں فرضی انکاؤنٹرز ہوئے ہیں'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'کانگریس کی حکومت رہی ہو یا موجودہ حکومت دونوں نے پولیس والوں کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے، یہی وجہ ہے کہ آج بھی متاثرین انصاف کیلئے دربدر بھٹک رہے ہیں'۔

دارا پوری نے کہا کہ جو بھی اس فرضی انکاؤنٹر میں شامل تھے، ان آفیسرز پر سخت کاروائی ہونی چاہیے تاکہ پولیس کے اندر بھی خوف پیدا ہو اور وہ ماضی میں ایسا کام کرنے سے پرہیز کریں۔

رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ 'اگر مسلم نوجوان کسی کیس میں گرفتار کر لیے جاتے ہیں اور وہ بےگناہ بھی ہوں، تب بھی وہ کئی برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔'

انہوں نے بھی اس واقعے کی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا۔

Intro:بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر کے11 سال مکمل ہوگئے لیکن متاثرین آج بھی انصاف کی راہ تک رہے ہیں لیکن انصاف ان سے کوسوں دور ہے۔


Body:19 ستمبر 2008 جب دہلی میں گولیاں چلی تو پوری دہلی دہل اٹھی تھی۔ اس انکاؤنٹر کا اثر مرکزی دارلحکومت سے ہوتے ہوئے اتر پردیش کے اعظم گڑھ تک ہوا۔

کیونکہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر میں خنزیر دو لوگوں کی موت ہوئی تھی، ان کا تعلق یو پی کے اعظم گڑھ سے تھا۔ ایک کا نام آصف آمین تھا اور وہ جامعہ ملیہ میں ماسٹر ڈگری کر رہا تھا، جبکہ دوسرا ساجد تھا اور اس کی عمر محض 17 سال تھی، وہ بھی اعظم گڑھ کا رہنے والا تھا۔

اس سارے معاملے کے بعد ملک بھر میں ایک بحث چلی تھی کہ یہ انکاؤنٹر فرضی ہے کیونکہ کئی ایسی باتیں سامنے آئیں جن پر یقین کرنا تب بھی مشکل تھا اور آج بھی اتنا ہی دشوار ہے۔

اترپردیش کی دارلحکومت لکھنؤ میں اس پر اجلاس ہوا اور حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ جلد انصاف ملنا چاہیے۔

ای ٹی وی بھارت سے بات چیت کے دوران سماجی کارکن روی نائک نے بتایا کہ بٹلہ ہاؤس متاثرین کو آج بھی انصاف نہیں ملا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تب کی اور آج کی حکومت انہیں بچانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلےکی روزانہ سماعت ہونی چاہیے تاکہ جلد انصاف مل سکے۔

سابق آئی جی ایس آر دارا پوری نے کہا کہ بٹلہ ہاؤس انکاؤنٹر فرضی تھا۔ انہوں نے کہا کہ اترپردیش میں بھی ہزاروں کی تعداد میں فرضی انکاؤنٹر ہوئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کانگریس کی حکومت رہی ہو یا موجودہ حکومت دونوں نے پولیس والوں کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی۔

یہی وجہ ہے کہ آج بھی متاثرہ انصاف کیلئے دربدر بھٹک رہے ہیں۔ مسٹر دارا پوری نے کہا کہ جو بھی فرضی انکاؤنٹر ہوں، ان آفیسر پر سخت کاروائی ہونی چاہیے تاکہ پولیس والوں کے اندر بھی خوف پیدا ہو تاکہ وہ غلط کام سے پرہیز کریں۔


Conclusion:رہائی منچ کے صدر ایڈوکیٹ شعیب نے کہا کہ اگر مسلم نوجوان کسی کیس میں گرفتار کر لیے جاتے ہیں اور وہ بےگناہ بھی ہوں، تب بھی کئی برس جیل کی سلاخوں کے پیچھے پڑے رہتے ہیں۔

مسٹر شعیب نے کہا کہ ضرورت ہے کہ جو بھی بے گناہ لوگ گرفتار کئے جائیں انہیں جلد انصاف ملے اور ایسے افسران کے خلاف کارروائی یقینی بنانے کی ضرورت ہے تبھی اس طرح کے معاملات کم ہوں گے۔
Last Updated : Oct 1, 2019, 12:15 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.