ریاست اترپردیش کے ضلع رامپور میں ای ٹی وی بھارت کی ٹیم نے معروف وکیل شوکت علی خان سے الہ آباد ہائی کورٹ کے تبصرے پر ان کا ردعمل جانا اور ان سے اس سے متعلق بات چیت کی۔
بتا دیں کہ گذشتہ روز الہ آباد ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ جب بھی گوشت برآمد ہوتا ہے اس کی فورنسک لیب میں جانچ کرائے بغیر اسے گائے کا گوشت قرار دیا جاتا ہے اور بے قصور شخص کو اس الزام میں جیل بھیج دیا جاتا ہے جو شاید اس نے کیا نہیں ہے۔ کورٹ نے آوارہ مویشوں کو دیکھ بھال کی حالت پر کہا کہ ریاست میں تحفظ گائے کو صحیح جذبے کے ساتھ نافذ کرنے کی ضرورت ہے۔
عدالت نے کہا کہ زیادہ تر معاملوں میں جب گوشت پکڑا جاتا ہے تو اسے گائے کا گوشت قرار دیا جاتا ہے۔ اسے فورنسک لیب نہیں بھیجا جاتا ہے اور ملزم کو اس جرم میں جیل بھیج دیا جاتا ہے جس میں سات برس تک کی سزا کی تجویز ہے۔
الہ آباد ہائی کورٹ کے جج کے اس تبصرے پر ای ٹی وی بھارت ٹیم کی نے معروف وکیل اور قلم کار شوکت علی خان سے خصوصی بات چیت کی۔
یہ بھی پڑھیں: اترپردیش میں راجیہ سبھا انتخابات کے لیے پرچہ نامزدگی داخل
الہ آباد ہائی کورٹ کے اس تبصرے کو خصوصیت کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ریاست میں اکثر یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ گائے ذبیحہ والے قانون کا غلط استعمال کرتے ہوئے ہر قسم کے گوشت کو گئو کشی قرار دے دیا جاتا ہے۔
دراصل گائے کا گوشت فروخت کرنے اور گائے ذبیحہ کے معاملے میں شاملی کے ملزم رحیم الدین کی مشروط ضمانت پر رہائی کا حکم دیا گیا ہے۔ جسٹس سدھارتھ کے سنگل بنچ نے حکم دیتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ جب بھی کوئی گوشت ضبط کیا جاتا ہے تو اسے گائے کا گوشت قرار دیا جاتا ہے اور فارنسک لیب میں جانچ بھی نہیں کرائی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی انہوں نے آواراہ مویشیوں سے ہونے والے نقصانات پر بھی اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے اس تبصرہ کو لیکر ہم نے معروف وکیل شوکت علی خان سےخصوصی بات چیت کی۔
انہوں نے ای ٹی وی بھارت سے اپنی بات چیت میں اس معاملے کے بارے میں کئی اہم نکات کی جانب روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے بھی ہائی کورٹ کی جانب سے ایسے تبصرے آئے ہیں۔ لیکن پولیس اور انتظامیہ کا رویہ ہمشیہ یہی دیکھنے میں آتا ہے جس کا ہائی کورٹ نے ذکر کیا ہے۔ انہوں نے رامپور میں کالے جانوروں کے ذبیحہ سے متعلق پولیس کی سختیوں پر بھی تنقید کی۔