یوپی کے دارالحکومت لکھنؤ میں آدرش جیل کے کچھ قیدیوں نے لوگوں کے نظریہ کو تبدیل کردیا ہے۔ اس جیل کے قیدی اپنی ایمانداری اور قابلیت کے زور پر جیل اور جیل سے باہر ایک الگ شناخت بنا چکے ہیں۔ انھیں 'آدرش بینڈ' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ جب حکومت انہیں موقع دے رہی ہے تو ہم کیوں نہ دیں۔
فی الحال 441 قیدی لکھنؤ کے آدرش جیل میں بند ہیں۔ اس جیل میں گذشتہ 10 سالوں سے قیدیوں کا یہ آدرش بینڈ کام کر رہا ہے۔ یہ بینڈ 12 قیدی اور ایک ماسٹر پر مشتمل ہے۔ یہ باہر کے بینڈ سے بالکل مختلف ہے، کیونکہ یہ بینڈ کسی عام شخص کے ذریعہ نہیں چلایا جاتا بلکہ قیدی چلاتے ہیں، وہ بھی عمر قید کی سزا یافتہ قیدی۔ اس جیل میں ان قیدیوں کو اتنی آزادی ہے کہ وہ دوسروں کی شادیوں میں جا کر بینڈ بجا سکتے ہیں۔
آدرش جیل بینڈ کے ماسٹر سریندر کمار کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے 3 سالوں سے اس بینڈ کو چلارہے ہیں۔ اس بینڈ کی بکنگ 2500 روپے فی گھنٹہ کی شرح سے کی جاتی ہے۔ بکنگ کے بعد یہ رقم قیدیوں میں بانٹ دی جاتی ہے۔ اس بینڈ کے ذریعے قیدیوں کو بھی معاشرے میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ یہ آزادی کہیں اور نہیں ہے۔ اس بار کورونا وائرس کی وجہ سے گرمیوں کی شادیوں میں کوئی بکنگ نہیں ملی۔ وہیں اب تک چھ بکنگ موصول ہوئی ہے۔ کوئی بھی قیدیوں کے اس بینڈ کو بُک کرسکتا ہے۔
بینڈ ماسٹر سریندر کمار نے بتایا کہ بینڈ صرف 2 گھنٹے کے لئے بک کیا جاتا ہے۔ بکنگ والے دن، 12 قیدی ایک بس میں سوار ہوئے اور شادیوں میں گئے۔ سیکیورٹی کے نام پر صرف 2 پولیس اہلکار موجود ہوتے ہیں، لیکن پروگرام ختم ہوتے ہی تمام قیدی ایمانداری کے ساتھ جیل واپس آجاتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ قیدیوں کو اتنی سہولیات مل جاتی ہیں کہ وہ بھاگنے کا سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔
بینڈ ماسٹر سریندر کے مطابق اس کی بکنگ کے لئے آدرش جیل آنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی 2 گھنٹے کے لئے یہ بینڈ بک کرسکتا ہے۔ وہیں 30 روپے فی کلو میٹر کی شرح سے بس کا کرایہ بھی بکنگ کرنے والے شخص کو ادا کرنا پڑتا ہے۔
سزا یافتہ قیدی پپو، جو پچھلے 10 سالوں سے بینڈ سے وابستہ ہیں، نے کہا کہ انہیں بینڈ کے ذریعے معاشرے میں شامل ہونے کا موقع ملتا ہے۔ اس سے وہ بہت خوش ہوتے ہیں۔ کیونکہ بند زندگی سے کھلی زندگی کی طرف جانے کا تجربہ مختلف ہے۔ وہ پچھلے 10 سالوں سے بینڈ میں پسٹن بجا رہے ہیں۔
پپو نے کہا کہ جب ہم معاشرے سے مربوط ہوتے ہیں تو ہمیں اچھا لگتا ہے۔ دوم، ہمیں یہ نیا موقع ملا ہے جس کے لئے ہم حکومت کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں۔
قیدیوں نے بتایا کہ جب بھی وہ شادی کی کسی بھی تقریب میں جاتے ہیں تو ان پر ذرہ برابر بھی تاثر نہیں ہوتا ہے کہ وہ قیدی ہیں۔ لوگوں کے ساتھ ان کا رویہ ایک عام انسان کی طرح ہوتا ہے، جس سے انہیں بہت خوشی ہوتی ہے۔
ان قیدیوں کے بارے میں معلومات کے لئے ای ٹی وی بھارت کی ٹیم دارالحکومت لکھنؤ کے گوسائی گنج کے ایک شادی ہال میں شادی کی تقریب میں پہنچی، جہاں بارات کے لئے آدرش جیل بینڈ بک کیا گیا تھا۔ اس دوران دولہا اور دلہن کے کنبہ کے افراد نے بتایا کہ یہ بینڈ اپنے علاقے میں بڑے پیمانے پر مشہور ہے۔
دولہا کے چچا نے بتایا کہ یہ بہت ہی سنسکاری بینڈ ہے، جس وجہ سے انہوں نے اپنے بھانجے کی شادی میں یہ بینڈ بک کرایا۔ انہوں نے بتایا کہ اگرچہ یہ قیدی کسی جرم میں سزا بھگت رہے ہیں لیکن انہیں بھی نئی زندگی شروع کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ وہیں دولہا نے بتایا کہ جب حکومت انہیں نئی زندگی شروع کرنے کا موقع دے رہی ہے تو پھر ہم اسے کیوں نہ دیں، وہ بھی انسان ہیں۔
سنہ 2009 میں مایاوتی کے دور میں اس آدرش جیل کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہاں سزایافتہ 20 سے 45 سال کی عمر کے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ فی الحال یہاں 441 قیدی ہیں۔ اس جیل میں قیدیوں کو صنعتی سرگرمیوں میں مزدوری کرکے رقم کمانے کا موقع بھی دیا جاتا ہے۔
لکھنؤ زون کے جیل ڈی آئی جی سنجیو ترپاٹھی کا کہنا ہے کہ آدرش جیل کا یہ بینڈ باہر کی شادیوں میں بھی جاتا ہے۔ اس وقت ریاست کی کسی اور جیل میں ایسی کوئی سہولت موجود نہیں ہے۔ یہ بینڈ 26 جنوری اور 15 اگست کو بھی پروگرام میں شریک ہوتا ہے۔