ریاست اترپردیش کے ضلع بنارس میں تیزاب متاثرہ خواتین کے لیے ریڈ بریگیڈ نامی غیر سرکاری این جی او نے ایک 'اورنج کیفے' کا آغاز کیا ہے، جس میں صرف وہ خواتین بطور ملازمہ اور بطور مالک کام کرتی ہیں جن پر تیزاب سے حملہ کیا گیا ہے۔
تنظیم کے ذمہ دار کارکن اجے پٹیل بتاتے ہیں کہ اورنج کیفے اگرچہ تیزاب متاثرہ خواتین کو مستحکم کر رہا ہے لیکن ابھی سماج میں کافی دشواریوں کا سامنا ہے۔
معاشرے کے لوگوں کی ذہنیت جھلسے ہوئے خواتین کو لے کر مختلف ردعمل ہوتا ہے۔ بعض افراد کیفے میں آتے ہیں لیکن بغیر کھائے چلے جاتے ہیں اور بعض افراد نے آرڈر بھی منسوخ کر دیا ہے۔
اجے بتاتے ہیں کہ اس کیفے کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں معاشرے کا 90 فیصد افراد نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ مبارکباد پیش کرتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ کیفے کسٹمرس کو نہ صرف سامان مہیا کرتا ہے بلکہ ان خواتین کے بارے میں بھی معلومات دی جاتی ہے، جو یہاں کام کرتے ہیں اور جس مقصد سے یہ کھولا گیا ہے۔
اجے نے بتایا کہ ریاست اتر پردیش میں تیزاب متاثرہ خواتین کی تعداد تقریباً 300 ہے جن میں بیشتر خواتین گھروں میں محصور ہیں وہ بتاتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے سخت گائیڈ لائن کے باوجود تیزاب متاثرہ خواتین کو برسوں گزر گئے لیکن معاوضہ نہیں ملا ہے۔
حالانکہ کہ عدالتی گائیڈ لائن میں 6 میں کے اندر پہلی قسط دینا ضروری ہوتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت نے اگرچہ تیزاب متاثرہ خواتین کے لیے سرکاری محکموں میں ملازمت دینے کے قانون بنا لیا ہے، لیکن اب تک کسی بھی تیزاب متاثرہ خاتون کو ملازمت نہیں ملی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بیشتر متاثرہ خواتین کی کہانیاں ایک ہی ہوتی ہیں لیکن کچھ خواتین ان واقعات کے بعد انتہائی خوفزدہ ہوگئی ہیں، ایسے خواتین کو حوصلہ دینا اور معاشی طور پر مستحکم کرنا بہت چیلنجنگ ہے۔
پریاگ راج (الہ آباد) کی رہائشی ہیں سنگیتا بتاتی ہیں کہ، '2018 میں ان پر تیزاب کے ذریعے ایک نوجوان نے حملہ کیا تھا۔'
انہوں نے بتایا کہ، 'اس حادثے کو تقریباً تین برس ہوگئے لیکن ابھی تک کوئی معاوضہ نہیں ملا ہے۔'
سنگیتا کے ساتھ قانونی لڑائی میں نہ صرف ان کے اہل خانہ ہیں بلکہ کچھ تنظیمیں بھی ساتھ ہیں۔ سنگیتا اب اورنج کیفے میں نہ صرف بطور ملازمہ کام کرتی ہیں بلکہ مالکانہ حق بھی رکھتی ہیں۔
واضح رہے کہ ممبئی ہائی کورٹ نے 2013 میں پریتی کے کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ تیزاب صرف ان افراد کو فروخت کیا جائے گا جن کے پاس شناختی کارڈ موجود ہوں۔
بھارت کی سپریم کورٹ نے 2013 میں ایک حکم میں کہا تھا کہ 18 برس سے کم عمر کے کسی بھی فرد کو تیزاب فروخت نہ کیا جائے اس جرم کے مرتکب افراد کو ضمانت بھی نہیں دی جائے گی۔
عدالت کے فیصلے کے مطابق تیزاب سے متاثرہ افراد ریاستی حکومت کی جانب سے مالی امداد کے حقدار ہونگے اور انہیں کم از کم تین لاکھ روپے بطور معاوضہ دیا جائے گا۔