ETV Bharat / state

Prof Ibn e kanwal remembered ابن کنول باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، پروفیسر محمد علی جوہ - علی گڑھ پروفیسر ابن کنول کے انتقال پر جلسہ

دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر ابن کنول کے انتقال پر علی گڑھ میں ایک تعزیتی جلسہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ادباء اور شعراء ابن کنول کی شخصیت اور ادبی کارناموں کا ذکر کیا۔ Condolence meeting organized in Aligarh

ابن کنول باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، پروفیسر محمد علی جوہ
ابن کنول باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے، پروفیسر محمد علی جوہ
author img

By

Published : Feb 16, 2023, 8:08 PM IST

علی گڑھ: شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں منعقدہ تعزیتی جلسے میں پروفیسر ابن کنول، سابق صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی، کو یاد کرتے ہوئے ان کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی گئی۔ تعزیتی جلسے میں پروفیسر ابن کنول کے علمی و فنی اکتسابات کا ذکر کیا گیا۔ پروفیسر ابن کنول علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروردہ تھے۔ علی گڑھ میں منعقدہ تعزیتی جلسہ میں پروفیسر ابن کنول کے زمانہ طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے ان کی شخصیت کے تشکیلی عناصر پر روشی ڈالی گئی۔ جلسے میں پاکستان کے شاعر امجد اسلام امجد اور اداکار ضیا محی الدین کے انتقال پر بھی رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ صدر، شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے اپنے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’پروفیسر ابن کنول باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے جن کی گفتگو میں حد درجہ شگفتگی تھی، وہ ابھی عمرہ سے واپس آئے تھے اور اے ایم یو شعبہ اردو میں پی ایچ ڈی کے فائنل وائیوا کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ وائیوا لینے کے بعد وہ اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے تھے جہاں یہ حادثہ پیش آیا۔‘‘

پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا کہ ’’ابن کنول مستند ناقد، محقق افسانہ نگاری اور بلند پایہ ادیب تھے۔‘‘ صدر جلسہ، پروفیسر طارق چھتاری نے منٹو سرکل میں درجہ پنجم سے اب تک کے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’ہم تین برس آگے پیچھے ضرور تھے مگر ہمارے درمیان اسی وقت سے تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ ایم اے اردو میں ایک طویل کہکشاں تھی جو شاعری اور افسانے لکھتی تھی۔ اس کہکشاں میں سب سے پہلے افسانہ نگار ابن کنول تھے جنہوں نے درجہ پنجم سے افسانے لکھنے شروع کر دئیے تھے، لیکن وہ بہت زیادہ اس کا ذکر نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کی طبیعت میں سنجیدگی تھی۔ ابن کنول کے افسانوں میں داستانی رنگ پایا جاتا ہے جو ان کی خصوصیت ہے۔ علی گڑھ میں اس دور میں جن افسانہ نگاروں نے افسانے تحریر کیے ابن کنول ان کے امام تھے۔‘‘ محمد حسن نے ان کے افسانہ ’’راستہ بند‘‘ کو نہ صرف بہت پسند کیا تھا بلکہ اس کو جدیدیت کے بعد بیانیہ کی طرف واپسی کا سنگ میل قرار دیا تھا۔ پروفیسر طارق چھتاری نے بتایا کہ ’’وہ فنکار کے ساتھ ساتھ اداکار بھی تھے۔‘‘ پروفیسر سید محمد ہاشم نے اپنے زمانہ طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے متعدد واقعات کے حوالے سے ان کی شخصیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ وہ اساتذہ اور دوستوں کے ساتھ کس انداز سے پیش آتے تھے۔ وہ حد درجہ خلیق اور ملنسار تھے، ان کا انتقال میرا ذاتی نقصان ہے۔

سابق صدر شعبہ پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ ’’ابن کنول ایک بڑے فنکار اور نقا د تھے۔ وہ جب دہلی سے علی گڑھ آتے تھے تو اپنے اساتذہ سے بڑے احترام سے ملاقات کرتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے دوستوں سے محبتوں سے ملتے تھے۔‘‘ پروفیسر ابن کنول کے ساتھ گزرے ہوئے ایام کو یاد کرتے ہوئے پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ ’’ان کے والد بھی ایک فنکار تھے، اور یہاں قاضی عبد الستار جیسا فنکار ملا اور جب دہلی پہنچے تو قمر رئیس جیسے نقاد کی معیت نصیب ہوئی، اس طرح ان کی ایسی تربیت ہوئی جس نے ان کو مثالی بنا دیا۔ افسانے کے علاوہ داستانوں سے ان کی حد درجہ دلچسپی تھی، 1984 میں ان کا جب پہلا افسانوی مجموعہ آیا تو قاضی عبد الستار جیسے بڑے ادیب نے جشن کا اعلان کیا اور اسے منایا بھی۔ وہ ایک ہمہ جہت فنکار تھے۔‘‘

پروفیسر شہاب الدین نے پروفیسر ابن کنول کی بلند درجات کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ ’’زندگی کتنی بے اعتبار ہے اس کا مشاہدہ ہم بچپن سے کرتے آئے ہیں لیکن ابن کنول کا جس طرح انتقال ہوا اس نے ہم سب کو سکتہ میں ڈال دیا ہے۔ پی ایچ ڈی کے وائیوا سے قبل ہم ان کی گفتگو سے محظوظ ہوئے مگر ایک گھنٹے بعد ہی وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ابن کنول نہ صرف تخلیق کار تھے بلکہ وہ ایک محقق اور نقاد بھی تھے۔ فکشن، تنقید پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ وہ بحیثیت دوست اور استاد بہت اچھے انسان تھے۔ وہ بچوں کی صلاحیتوں کو پہچان کر ان کو سمت دینا جانتے تھے، اس لیے وہ ہمیشہ اپنے دوستوں اور شاگردوں کے درمیان یاد رکھے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: Condolence Meeting in Urdu Academy اردو اکادمی دہلی میں پروفیسر ابن کنول کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی نشست

پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے امجد اسلام امجد اور ضیا محی الدین کے انتقال پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہاکہ امجد اسلام اس دور کے نمایاں شاعر تھے جن کے منفرد اسلوب کی وجہ سے ان کو شناخت ملی۔ انہوں نے دو بار ان کی علی گڑھ آمد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ایک بار تو جلسہ گاہ میں جگہ کم پڑنے کی وجہ سے اسے تبدیل کرنا پڑا، جس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ انہوں نے ضیا محی الدین کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک باکمال اداکار و صدا کار تھے، جو اپنی آواز کے نشیب و فراز سے ہی بہت کچھ کہہ جاتے تھے۔ ان ادبا کے انتقال سے اردو دنیا کو بڑا صدمہ پہنچا ہے۔‘‘ اس موقع پر مرحوم ابن کنول کے تین بھائی جاوید، راشد اور شاہد صاحبان، شعبہ اردو کے اساتذہ اور طلبا کے ساتھ ہی غیر تدریسی عملے نے بھی شرکت کی۔ پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی کی دعا کے ساتھ جلسے کا اختتام ہوا۔

علی گڑھ: شعبہ اردو، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں منعقدہ تعزیتی جلسے میں پروفیسر ابن کنول، سابق صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی، کو یاد کرتے ہوئے ان کے انتقال پر رنج و غم کا اظہار کیا گیا اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کی گئی۔ تعزیتی جلسے میں پروفیسر ابن کنول کے علمی و فنی اکتسابات کا ذکر کیا گیا۔ پروفیسر ابن کنول علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے پروردہ تھے۔ علی گڑھ میں منعقدہ تعزیتی جلسہ میں پروفیسر ابن کنول کے زمانہ طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے ان کی شخصیت کے تشکیلی عناصر پر روشی ڈالی گئی۔ جلسے میں پاکستان کے شاعر امجد اسلام امجد اور اداکار ضیا محی الدین کے انتقال پر بھی رنج و افسوس کا اظہار کرتے ہوئے انہیں بھی خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ صدر، شعبہ اردو پروفیسر محمد علی جوہر نے اپنے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’پروفیسر ابن کنول باغ و بہار شخصیت کے مالک تھے جن کی گفتگو میں حد درجہ شگفتگی تھی، وہ ابھی عمرہ سے واپس آئے تھے اور اے ایم یو شعبہ اردو میں پی ایچ ڈی کے فائنل وائیوا کے لیے حاضر ہوئے تھے۔ وائیوا لینے کے بعد وہ اپنے بھائی سے ملاقات کے لیے ان کے گھر گئے تھے جہاں یہ حادثہ پیش آیا۔‘‘

پروفیسر محمد علی جوہر نے کہا کہ ’’ابن کنول مستند ناقد، محقق افسانہ نگاری اور بلند پایہ ادیب تھے۔‘‘ صدر جلسہ، پروفیسر طارق چھتاری نے منٹو سرکل میں درجہ پنجم سے اب تک کے اپنے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’ہم تین برس آگے پیچھے ضرور تھے مگر ہمارے درمیان اسی وقت سے تعلقات قائم ہو گئے تھے۔ ایم اے اردو میں ایک طویل کہکشاں تھی جو شاعری اور افسانے لکھتی تھی۔ اس کہکشاں میں سب سے پہلے افسانہ نگار ابن کنول تھے جنہوں نے درجہ پنجم سے افسانے لکھنے شروع کر دئیے تھے، لیکن وہ بہت زیادہ اس کا ذکر نہیں کرتے تھے کیونکہ ان کی طبیعت میں سنجیدگی تھی۔ ابن کنول کے افسانوں میں داستانی رنگ پایا جاتا ہے جو ان کی خصوصیت ہے۔ علی گڑھ میں اس دور میں جن افسانہ نگاروں نے افسانے تحریر کیے ابن کنول ان کے امام تھے۔‘‘ محمد حسن نے ان کے افسانہ ’’راستہ بند‘‘ کو نہ صرف بہت پسند کیا تھا بلکہ اس کو جدیدیت کے بعد بیانیہ کی طرف واپسی کا سنگ میل قرار دیا تھا۔ پروفیسر طارق چھتاری نے بتایا کہ ’’وہ فنکار کے ساتھ ساتھ اداکار بھی تھے۔‘‘ پروفیسر سید محمد ہاشم نے اپنے زمانہ طالب علمی کو یاد کرتے ہوئے متعدد واقعات کے حوالے سے ان کی شخصیت پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ وہ اساتذہ اور دوستوں کے ساتھ کس انداز سے پیش آتے تھے۔ وہ حد درجہ خلیق اور ملنسار تھے، ان کا انتقال میرا ذاتی نقصان ہے۔

سابق صدر شعبہ پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ ’’ابن کنول ایک بڑے فنکار اور نقا د تھے۔ وہ جب دہلی سے علی گڑھ آتے تھے تو اپنے اساتذہ سے بڑے احترام سے ملاقات کرتے تھے۔ اسی طرح وہ اپنے دوستوں سے محبتوں سے ملتے تھے۔‘‘ پروفیسر ابن کنول کے ساتھ گزرے ہوئے ایام کو یاد کرتے ہوئے پروفیسر صغیر افراہیم نے کہا کہ ’’ان کے والد بھی ایک فنکار تھے، اور یہاں قاضی عبد الستار جیسا فنکار ملا اور جب دہلی پہنچے تو قمر رئیس جیسے نقاد کی معیت نصیب ہوئی، اس طرح ان کی ایسی تربیت ہوئی جس نے ان کو مثالی بنا دیا۔ افسانے کے علاوہ داستانوں سے ان کی حد درجہ دلچسپی تھی، 1984 میں ان کا جب پہلا افسانوی مجموعہ آیا تو قاضی عبد الستار جیسے بڑے ادیب نے جشن کا اعلان کیا اور اسے منایا بھی۔ وہ ایک ہمہ جہت فنکار تھے۔‘‘

پروفیسر شہاب الدین نے پروفیسر ابن کنول کی بلند درجات کی دعا کرتے ہوئے کہا کہ ’’زندگی کتنی بے اعتبار ہے اس کا مشاہدہ ہم بچپن سے کرتے آئے ہیں لیکن ابن کنول کا جس طرح انتقال ہوا اس نے ہم سب کو سکتہ میں ڈال دیا ہے۔ پی ایچ ڈی کے وائیوا سے قبل ہم ان کی گفتگو سے محظوظ ہوئے مگر ایک گھنٹے بعد ہی وہ ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہو گئے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ابن کنول نہ صرف تخلیق کار تھے بلکہ وہ ایک محقق اور نقاد بھی تھے۔ فکشن، تنقید پر ان کی گہری نگاہ تھی۔ وہ بحیثیت دوست اور استاد بہت اچھے انسان تھے۔ وہ بچوں کی صلاحیتوں کو پہچان کر ان کو سمت دینا جانتے تھے، اس لیے وہ ہمیشہ اپنے دوستوں اور شاگردوں کے درمیان یاد رکھے جائیں گے۔

مزید پڑھیں: Condolence Meeting in Urdu Academy اردو اکادمی دہلی میں پروفیسر ابن کنول کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی نشست

پروفیسر شہاب الدین ثاقب نے امجد اسلام امجد اور ضیا محی الدین کے انتقال پر تعزیت پیش کرتے ہوئے کہاکہ امجد اسلام اس دور کے نمایاں شاعر تھے جن کے منفرد اسلوب کی وجہ سے ان کو شناخت ملی۔ انہوں نے دو بار ان کی علی گڑھ آمد کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ایک بار تو جلسہ گاہ میں جگہ کم پڑنے کی وجہ سے اسے تبدیل کرنا پڑا، جس سے ان کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جا سکتاہے۔ انہوں نے ضیا محی الدین کے بارے میں بتایا کہ وہ ایک باکمال اداکار و صدا کار تھے، جو اپنی آواز کے نشیب و فراز سے ہی بہت کچھ کہہ جاتے تھے۔ ان ادبا کے انتقال سے اردو دنیا کو بڑا صدمہ پہنچا ہے۔‘‘ اس موقع پر مرحوم ابن کنول کے تین بھائی جاوید، راشد اور شاہد صاحبان، شعبہ اردو کے اساتذہ اور طلبا کے ساتھ ہی غیر تدریسی عملے نے بھی شرکت کی۔ پروفیسر قمرالہدیٰ فریدی کی دعا کے ساتھ جلسے کا اختتام ہوا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.