ریاست اترپردیش کے ضلع بریلی کے اسکول انتظامیہ کی جانب سے طلبہ کے فیس کی عدم ادئیگی کے سبب بچوں کو یرغمال بنانے کا معاملہ منظر عام پر آیا ہے۔ جس کے بعد اسکول انتظامیہ کے خلاف لوگ بر ہم نظر آرہے ہیں۔ اسکول انتظامیہ کے خلاف علاقائی تھانہ عزّت نگر میں ایک مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اسکول کی کوآرڈینیٹر شالینی جونیجا، منیجر جویل میسی کے ساتھ پرنسپل انیل کلّو اور ٹیچر روشن کو بھی اس مقدمہ میں نامزدکیا گیا ہے۔ بچوں کو یرغمال بنانے کے ساتھ ساتھ ملزمین کے خلاف فرقہ وارانہ ماحول خراب کرنے، دھمکیاں دینے اور بدنام کرنے کا بھی الزام عائد کیا گیا ہے۔ Students, Parents Held Hostage by Private School in Uttar Pradesh Over Fee Dispute
شہر کے گاندھی نگر کے رہنے والے نریندر رانا نے اسکول کی کوآرڈینیٹر شالنی جونیجا اور منیجر جویل میسی کے خلاف بچوں کے ساتھ نامناسب سلوک کرنے کے معاملہ کے تحت مقدمہ درج کریا تھا۔بتایاجارہا ہے کہ ملزم کو بچانے کے لیے پولیس نے بچوں کے سرپرست سے دوسری تحریر لکھوائی، جس میں پرنسپل اور ٹیچر کے نام شامل نہیں تھے۔ ساتھ ہی کوآرڈینیٹر کا نام شالنی جونیجا کے بجائے شالنی جوہری لکھا گیا۔ جب اس معاملہ میں پولیس کی کارکردگی پر سوال کھڑے ہوئے تو پولیس نے تفتیش میں ان تمام ناموں کو شامل کرنے کی بات کہی۔
اسی دوران اشرف خان چھاؤنی کے ساکن سیف الرحمان آئی جی رینج رمی شرما اور ایس ایس پی روہِت سنگھ سجوان سے شکایت کرنے پہنچے۔ اُنہوں نے پولیس کے اعلیٰ افسران کو بتایا کہ 7/ مئی کو بچوں سے امتحان کی جوابی بیاض (آنسر شیٹ) چھین کر بچوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا گیا۔ کمرے میں اسکول کا فرنیچر ٹوٹا ہوا تھا۔ پانی، بجلی اور بیت الخلاء کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ جس کی وجہ سے بچوں کی صحت بگڑ گئی۔ جب یہ اطلاع سامنے آئی تو امتحان ایک سادہ پرچے پر لیا گیا
سیف الرحمٰن نے الزام لگایا کہ یہ ایک سنگین جرم ہے۔ بچوں کو ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس غیر انسانی فعل سے بچے خوفزدہ اور ہراساں ہیں۔ اسکول کے پرنسپل انل کلّو اور ان کے ساتھیوں نے اشتعال انگیز تقریر کی تھی۔ اس سے فرقہ وارانہ ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ بچوں کو یرغمال بنانا اور بدنام کرنا سراسر غلط ہے۔ شالنی جونیجا، جیول میسی، روشن اور پرنسپل انیل کلّو اس کے ذمہ دار ہیں۔
مزید پڑھیں:Parents Union Bareilly: بریلی میں فیس جمع کرنے کے لیے انتظامیہ کا دباؤ، سرپرستوں کا الزام
آئی جی رمیت شرما کے احکامات کے بعد اس کیس میں پولیس سی سی ٹی وی فوٹیج اپنے قبضے میں لے گی۔ عزّت نگر پولیس کے مطابق سی سی ٹی وی کیمرے میں قید ہونے کے بعد یہ پورا واقعہ منظر عام پر آیا ہے۔ اس لیے تفتیش میں جن ملزمان کے نام سامنے آئیں گے، اُن کے نام بھی تفتیش کے بعد مقدمے میں شامل کیے جائیں گے۔ اس کے علاوہ اسکول کے احاطے میں اشتعال انگیز تقریریں کرنے اور فرقہ وارانہ ماحول کو خراب کرنے کی بات بھی سامنے آئی تھی۔ جس کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں نے بھی واقعے کی تحقیقات شروع کردی ہیں۔ وہ ہر نکتے کی باریک بینی سے جائزہ لے رہی ہے۔ اس پورے معاملے میں حکومت نے رپورٹ طلب کر لی ہے۔