رامپور: اترپردیش کے رامپور کو بزرگان دین اور صوفیوں کی سرزمین بھی کہا جاتا ہے۔ انہیں بزرگان دین میں ایک حضرت شاہ عبدالرحیمؒ عرف کمرخ والے میاں کا نام بھی خصوصیت کے ساتھ لیا جاتا ہے۔
رامپور کے شترخانہ علاقہ میں واقع کمرخ والے میاں کی درگاہ پر ان کے 212 ویں سالانہ عرس کا آغاز پوری عقیدت و احترام کے ساتھ ہو چکا ہے۔ حضرت کی حیات و خدمات سے متعلق ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے مولانا شاداب احمد قدیری نے کہا کہ انگریزی دور حکومت میں عدالت کے ایک معاملہ کو اپنی حکمت اور سوجھ بوجھ سے جس طرح سے انہوں نے حل کیا تھا اس سے انگریز بھی کافی متاثر ہو گئے تھے۔Urs of Hazrat Shah Abdur Raheem
انہوں نے کہا، جیسا کہ رامپور کو نواب فیض اللہ خاں نے آباد کیا تھا۔ انہوں نے رامپور میں علم و تحقیق کو فروغ دینے کے لیے دنیا بھر سے علماء کرام کو مدعو کیا تھا۔ جہاں دیگر علماء کرام رامپور تشریف لائے تھے انہیں میں مولانا شاہ عبدالرحیمؒ عرف کمرخ والے میاں بھی تشریف لائے۔
مولانا شاداب قدیری نے بتایا کہ انگریزی دور حکومت میں میں بریلی میں انگریزوں کی ایک کچہری ہوا کرتی تھی۔ وہاں کچھ مسائل درپیش آئے جو ان کی عقل سے ماورا تھے۔
Program helds in Gulbarga on Hazrat Ali’s Birthday: گلبرگہ میں حضرت علیؓ کے یوم ولادت پروگرام منعقد
انہوں نے نواب رامپور کو اس کے لئے خط لکھا کہ آپ اپنے علماء سے اس کو حل کرا دیں جس کو حضرت شاہ عبدالرحیم نے اپنے علم و حکمت سے حل کر دیا۔
انگریز کافی متاثر ہوئے اور انہوں نے حضرت کے فیصلہ کو دیکھ کر کہا تھا کہ یہ کسی نایاب ہستی کا فیصلہ معلوم ہوتا ہے جس میں اللہ کی قدرت بھی شامل ہے۔
مولانا شاداب قدیری نے یہ بھی بتایا کہ حضرت شاہ عبدالرحیم کو کمرخ والے میاں اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ ان کا مزار کمرخ کے پودوں کے درمیان بنایا گیا تھا۔