29 دسمبر 2019 سے شہر گیا کے شانتی باغ محلے میں سی اے اے و این آرسی اور این پی آر کی مخالفت میں سمویدھان بچاو مورچہ کے کنوینر عمیر احمد خان عرف ٹکا خان کی صدارت میں دھرنا جاری ہے۔
پندرہویں روز سبھی فرقے کی ہزاروں خواتین نے غیر معینہ دھرنے میں پہنچ کر این آرسی اور این پی آر کی مخالفت کرتے ہوئے واپس لینے کامطالبہ کیا ۔ پندرہویں دن دھرنے کی کمان خواتین کے ہاتھوں میں رہی ، خاص بات یہ تھی اتوار کو دھرنے میں چھوٹی بچیوں سے لیکر اسی برس تک کی بزرگ خاتون شامل تھیں۔
قانون، میڈیکل ، انجنیئرنگ اور دیگر مضامین کی طالبات نے اپنے احساسات وجذبات کاناصرف اظہار کیا بلکہ ناٹک اور اشعار کے ذریعے سی اے اے کو واپس لینے اور این آرسی اور این پی آر کا بائیکاٹ کی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اور فاشسٹ طاقتوں کا مقصد ملک کوتقسیم کی جانب دھکیلنا ہے۔
چودہ سال کی ایک طالبہ فاطمہ خان نے کہاکہ قانون نہ صرف آئین کے خلاف ہے بلکہ ملک کی سیکولر اقدار وروایات کے بھی خلاف ہے۔ قانون کی طالبہ مریم ثنا نے کہاکہ ہم سخت ترین سردی کے موسم میں مظاہرہ کرکے یہ پیغام دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ حکومت ہمارے درد کوسمجھے۔
مہنگائی ، بے روزگاری ، آبروریزی اور ظلم وزیادتی کے واقعات کو روکنے کے بجائے ہندوستانیوں کو حکومت قطار میں کیوں کھڑا کرناچاہتی ہے ، بیٹی بچاو ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دینے والی حکومت جامعہ ملیہ سے لیکر جے این یو تک بیٹیوں کی آواز کوکیوں کچل رہی ہے۔
میڈیکل کی تیاری کررہی فاریہ فاطمہ نے کہاکہ ہمارے آئین اور ہمارے وجود کو مٹانے کی سازش ہوئی ہے ، جب وجود خطرے میں ہوتاہے تو انسان کے پاس صرف احتجاج کرنے کاہی راستہ بچتاہے ، حکومت ہندوستان کی آواز کو کیوں نظر انداز کررہی ہے ، شانتی باغ سے لیکر شاہین باغ تک ہزاروں خواتین کھلے آسمان میں بیٹھی ہیں۔
آزادی کے بعد پہلا موقع ہے جب لاکھوں عام خواتین سڑک پراتری ہیں اور اسکی واحد وجہ اپنے وجود اور آئین کو بچانا ہے ۔انہوں نے کہا کہ احتجاج کا حق ہمیں قانون نے دیا ہے تاہم حکومت اس قانون کی بھی خلاف ورزی کررہی ہے ، آواز اٹھانے والی خواتین کو بھی پیٹا جارہاہے ، اس سے بڑا انقلاب کیا برپا ہو سکتاہے کہ آج گھر سے باہر کبھی نہیں نکلنے والی خواتین سڑک پر بیٹھ گئی ہیں۔
ہمارے مستقبل کاسوال ہے تو پیچھے کیسے ہٹیں ، حکومت انا کی لڑائی لڑرہی ہے تو ہم آئین کی لڑائی لڑنے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ واضح رہے کہ سمویدھان بچاو مورچہ کی جانب سے گزشتہ 29 دسمبر سے غیرمعینہ دھرنا جاری ہے۔ اتوار کو دھرنے کی قیادت وصدارت خواتین کے ہاتھوں میں تھی۔
اس دھرنے میں نہ صرف تعلیم یافتہ اور نوکریاں کرنے والی خواتین تھیں بلکہ گھریلو زندگی بسر کرنے والی خواتین کی بھی بڑی تعداد موجودتھی ۔ انکا کہنا تھا کہ وہ گھر میں تو ضرور رہتی ہیں تاہم بی جے پی اور اسکی حمایتی حکومت کے ارادوں سمیت ملک کے حالات سے بھی باخبر ضرو رہیں۔
اتنا انہیں بخوبی سمجھ میں آتاہے کہ انکے آباواجداد جنہوں نے وطن عزیز ہندوستان کی مٹی کو چوم کراپنا وطن منتخب کیاتھا ، آج انکی اولادوں سے شہریت کی سند مانگی جارہی ہے ، انکے آباواجداد نے غربت اور مفلسی میں زندگی بسر کردی ، انکی پیدائش اور تعلیم کی سند نہیں ہے تو اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہزار برس پرانا ہندوستان سے انکا رشتہ اور شہریت چھین لی جائیگی۔