اس موقع پر مولانا وحیدالدین خاں کی زندگی کا اجمالی منظرنامہ ای ٹی وی بھارت اپنے قارئین کے لیے پیش کر رہا ہے۔
مولانا وحیدالدین خاں کی پیدائش یکم جنوری 1925ء کو ریاست اترپردیش کے ایک علمی شہراعظم گڑھ کے ایک دوراُفتادہ گاؤں ”بڈہریا“ میں ہوئی۔
ان کے والد فریدالدین خاں اپنے علاقے کے ایک بہت بڑے زمیندار تھے جو ہندو اور مسلمانوں کی نظر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے جب کہ ان کی والدہ زیب النساء گھریلو امور سنبھالنے والی ایک ذمہ دارخاتون تھیں۔
مولانا کے والد کا انتقال بچپن میں ہی 1929 میں ہوگیا تھا اس لیے ان کی مکمل پرورش ان کی والدہ نے اپنی نگرانی میں کی۔ مولانا وحیدالدین خاں کا مجاہدین آزادی میں شمار کیا جاتا ہے۔
ان کے اہل خانہ اگرچہ جدید تعلیم کے طرف گئے تاہم 1938 میں ان کے چچا صوفی عبدالحمید خاں نے ان کا داخلہ مدرستہ الاصلاح سرائے میر اعظم گڑھ میں کرا دیا۔ وہاں انھوں نے 1944 تک تعلیم حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں سرفہرست نام مولانا امین احسن اصلاحی کا ہے۔
مولانا کی ابتدائی تعلیم عربی درسگاہ میں ہوئی۔ عربی اور دینی تعلیم سے فراغت کے بعد اُنھوں نے علومِ جدیدہ کی طرف توجہ دی۔ سب سے پہلے اُنھوں نے انگریزی زبان سیکھی۔ اُس کے بعد مغربی علوم کا مطالعہ شروع کیا۔ حتیٰ کہ جدید علوم میں پوری دسترس حاصل کرلی۔
اسلامیات اور مغربیات دونوں قسم کے علوم سے بخوبی واقفیت حاصل کرنے کے بعد مولانا موصوف اِس نتیجہ پر پہنچے کہ اِس دور میں اسلام کی سب سے بڑی خدمت یہ ہے کہ جدیدسائنسی دلائل سے اسلام کی حقانیت کو واضح کیا جائے اور عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر تیار کیا جائے اور پھر وہ اِس مہم میں لگ گئے۔
تعلیم سے فراغت کے بعد ان کا بیشتر وقت ریاست اترپردیش کی مختلف لائبریوں میں گزرا۔ اپنے اسلام اور جدید سائنس کے مطالعہ کے بعد انھوں نے سنہ 1955 میں 24 صفحات پر مشتمل کتاب 'نئے عہد کے دروازہ پر' لکھی۔
انھوں نے اردو، انگریزی ، ہندی اور عربی زبانوں میں 200 سے زائد کتابیں تحریر کی ہیں۔ ان کی سب سے معروف تصنیف مذہب اور جدید چلینج ہے۔
ان کی متعدد کتابیں عرب ممالک میں داخل نصاب ہیں، ان کی کئی کتابوں کا ترجمہ دنیا کی مختلف زبانوں میں ہو چکا ہے۔
سنہ 1967 ء وہ اعظم گڑھ سے مستقل ہجرت کرکے نئی دہلی آئے اور منظم انداز میں اپنا کام شروع کیا۔
ملکی اور غیر ملکی سطح پر اسلامی دعوت کو عام کرنے کے لیے اور دعوت الی اللہ کے کام کو منظم طور پر کرنے کے لیے مولانا وحیدالدین خاں نے ہفت روزہ الجمعیة سے وابستگی کے دوران 1970ء میں نئی دہلی میں اسلامی مرکز قائم کیا۔ اور اِس ادارہ کو گورنمنٹ سے رجسٹرڈ کروایا۔ اِس ادارے کا رجسٹرڈ عربی اور انگریزی نام اِس طرح ہے: المرکز الاسلامی للبحوث والدعوہ ہے:
The Islamic Centre For Reasearch & Dawah
اسلامی مرکز کے صدر کے طور پر مولانا محترم دینی خدمت کا کام انجام دینے لگے۔اور اسلامی مرکز کے ترجمان (Organ) کے طور پر انھوں نے اکتوبر 1976ء میں ماہنامہ 'الرسالہ' جاری کیا۔ چوں کہ مولانا موصوف کا مشن مبنی برجماعت نہیں بلکہ مبنی برفرد ہے۔
اس ادارے کا بنیادی مقصد ہے عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت ہے۔ چنانچہ اسلامی مرکز کے تحت اسی دعوتی مقصد کے لیے 1976ء میں ماہنامہ الرسالہ جاری کیا گیا، جس کا مقصد تھا مسلمانوں کی اصلاح اور ان کی ذہنی تعمیر اور مسلمانوں کے اندر دعوت الی اللہ کا حقیقی شعور پیدا کرنا۔
ماہانہ الرسالہ کے اردو کے علاوہ انگریزی اور ہندی ورژن کے پہلے شمارے بالترتیب فروری1984 اور دسمبر 1990 میں شروع کیے گئے تھے۔ الرسالہ کا انگریزی ورژن اب 'اسپرٹ آف اسلام' کے نام سے ریاست کرناٹک کے دارالحکومت بینگلور سے شائع ہو رہا ہے۔
مولانا سنہ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد پندرہ روزہ شانتی یاترا میں مولانا عبدالکریم پاریکھ، آچاریہ منی سشیل کمار اور سوامی چیدانند سروستی وغیرہ کے ساتھ شامل ہوئے۔ اس شانتی یاترا نے ملک کو امن کی طرف واپس لانے میں اہم کردادار کیا۔
مولانا نے غیر مسلموں کے تعلیم یافتہ طبقہ تک اسلام کے پر امن دعوتی پیغام کو پہنچانے کے لیے ایک عظیم الشان دعوتی ادارہ سنٹر فارپیس اینڈ اسپریچولٹی انٹرنیشنل (International Center for Peace & Spirituality ) قائم کیا۔
سی پی ایس انٹرنیشنل نئی دہلی میں جنوری 2001ء میں قائم ہوا۔ جیسا کہ اِس کے نام سے ظاہر ہے، اِس کا مقصد امن اور رُوحانیت کو فروغ دینا ہے ۔ یہ ایک غیر سیاسی تنظیم ہے۔ اس کا اصل نشانہ فکری انقلاب لانا اور انسان کو حقیقی انسان بنانا ہے۔
مولاناوحیدالدین خاں نے 2010ءمیں ایک نیا دعوتی شعبہ” القرآن مشن“ شروع کیا جس کا بنیاد ی مقصد ادخاِل کلمہ ہے ، یعنی گھر گھر دعوت کاپیغام پہنچانا۔
مولانا کی فکری اور دعوتی خدمات کے اعتراف میں قومی اور بین اقوامی سطح پر متعدد ایوارڈ سے نوازا گیا۔عام طور پر انھیں ایمبسڈر آف پیس(Ambassadar of Peace to the World) کہا جاتا ہے۔ مولانا کو سب سے پہلا ایوارڈ سندِ امتیاز حکومتِ پاکستان کی جانب سے1983ءمیں اُن کی کتاب پیغمبر انقلاب پر ملا، اس کے علاوہ مولانا کو سیرت انٹرنیشنل ایوارڈ منجانب حکومتِ پاکستان، محمودعلی خاں نیشنل انٹگریشن ایوارڈ، نیشنل سٹیزن ایوارڈ بدست مدر ٹریسا، ارونا آصف علی سدبھاونا ایوارڈ، قومی یکجہتی ایوارڈ منجانب حکومت ہند، دہلی اردواکادمی ایوارڈ برائے صحافت،فرقہ وارانہ ہم آہنگی ایورڈ، دیوالی بین موہن لال ایوارڈ،نیشنل امیٹی ایوارڈ، ایف آئی ای فاونڈیشن ایوارڈ، ڈیموگرس انٹرنیشنل ایورڈ سفیر امن ایوارڈ، مہاتماگاندھی نیشنل ایوارڈ فارٹالرنس،راجیوگاندھی سدبھاونا ایوارڈ وغیرہ سے نوازا گیا۔
چھبیس جنوری2000ءکو حکومت ہند کی جانب سے مولانا وحیدالدین خاں کو تیسرے سب سے بڑے شہری اعزاز”پدم بھوشن“ سے نوازاگیا۔
رواں برس 2021ءمیں حکومت ہند مولانا وحیدالدین خاں کو تیسرے سب سے بڑے شہری اعزاز”پدم ویبھوشن“دینے کا اعلان کیا ہے ، جب کہ مولاناکی عمر ہجری کلنڈر کے اعتبار سو سال ہونے جا رہی ہے۔
مولانااس وقت نئی دہلی کے معروف علاقہ نظام الدین میں رہتے ہیں۔ اور بیک وقت وہ اسلامی مرکز اور سی پی ایس انٹرنیشنل کے صدر ہیں، جس کے تحت منظم انداز میں دعوتی کام جاری ہے۔
مولانا وحید الدین خان کو ایک ایسے وقت میں حکومت ہند کے اعلی اعزاز سے نوازا گیا جب ملک میں مسلم اقلیت کئی طرح کے مسائل سے نبرد آزما ہے۔ انکے ناقدین کا کہنا ہے کہ دلی کے فرقہ وارانہ فسادات، این آر سی اور جامعہ ملیہ پر حملوں کے پس منظر میں مولانا کو یہ ایوارڈ نہیں لینا چاہئے۔ لیکن مولانا وحید الدین نے ان مخالفتوں پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
مولانا وحید الدین خاں کی خودنوشت تحریروں پر مبنی سوانح عمری "اوراق حیات" شائع ہوگئی ہے، جو ایک ہزار صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کو اردو زبان کے معروف سوانح نگار شاہ عمران حسن نے دس سال کی طویل محنت کے بعد مرتب کیا ہے۔