نقل و حرکت پر پابندیوں کی وجہ سے زرعی پیداور کی آمدورفت انتہائی مشکل ہوجائے گی۔
بہت سے کسان بیجوں کو ضروری خدمات کے زمرے کے تحت مطلع کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کووڈ 19 کے وبائی مرض کا اگلے خریف سیزن میں بیج کی پیداوار پر منفی اثر پڑا ہے ، کیونکہ بیجوں کو صاف کرنے اور پیک کرنے کا عمل بری طرح متاثر ہوا ہے۔
نیشنل سیڈ کارپوریشن لمیٹڈ (این ایس سی) نے حال ہی میں مرکزی اور ریاستی حکومتوں کی توجہ مبذول کروائی ہے کہ اگر صنعتیں بیج پروسسنگ کے ساتھ آگے نہیں بڑھ نہیں بڑھے گی تو اگلے مہینے سے ملک بھر میں بیجوں کی فروخت مشکل ہوگی۔
موجودہ سیزن میں اکتوبر سے اگائی جانے والی بیج کی فصلیں اب کٹائی کے مرحلے میں ہیں۔ فصلوں کو کاٹنے کے بعد بیجوں کو کھیتوں سے ادائیگی کے مراکز میں بھیجنا ضروری ہے۔ ان کے معیار کو بہتر اور جانچنے کے بعد ہی انہیں خریف سیزن میں فروخت کیا جاسکتا ہے، لیکن مسئلہ مقام پیداور سے لے کر مقام صرف کے حمل و نقل کا ہے۔
تلنگانہ کے محکمہ زراعت کا منصوبہ ہے کہ کسانوں کو براہ راست مراعات پر 7.50 لاکھ کوئنٹل بیج فروخت کیا جائے۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ریاستی سیڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو کاشتکاروں سے بیج خرید کر ریفائنریوں میں بھیجنا چاہئے۔ بیج ضروری خدمات کی فہرست میں آتے ہیں۔
چونکہ حکومت نے ضروری خدمات کو معمول کے مطابق کام کرنے کی اجازت دی ہے ، لہذا این ایس سی کے صدر ایم پربھاکر راؤ نے کہا کہ انہوں نے مرکزی زراعت کے سکریٹری اور ریاستی وزیر زراعت کو خط لکھا ہے کہ وہ لاک ڈاؤن کے دوران بیج ریفائنریوں کے کام کی اجازت دیں۔
انہوں نے کہا کہ بیج کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین کو اپنا شناختی کارڈ ظاہر کرنے کی اجازت دی جائے اور بیج لے جانے والے ٹرک کو پولیس کے ذریعہ روکا نہ جائے۔
پنجاب میں کپاس کی کاشت اگلے ماہ سے شروع ہوگی۔ آندھراپردیش اور تلنگانہ میں تمام فصلوں کی بیجوں کی فروخت مئی سے شروع ہونی چاہئے۔ اس کو انجام دینے کے لیے بیج کمپنیوں کو لاک ڈاؤن سے مستشنا کرنا ہوگا۔
چونکہ بیجوں کی فراہمی دوسری ریاستوں سے کی جانی چاہئے ، لہذا راو نے حکومتوں سے کہا کہ وہ بین ریاستی نقل و حمل کی اجازت دیں۔ تلنگانہ اسٹیٹ بیج اور نامیاتی سرٹیفیکیشن اتھارٹی کے ڈائریکٹر کیشالو نے بھی ان امور کو حکومت کے نوٹس میں لایا ہے۔
محکمہ زراعت نے حال ہی میں بیج کمپنیوں کو تلنگانہ میں 1.10 کروڑ روئی کے بیج کے پیکٹ فروخت کے لئے تیار کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ کمپنیوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں لاک ڈاؤن سے مستثنیٰ رکھیں۔