ETV Bharat / state

Azadi Ka Amrut Mahosthav: طرم خان نے انگریزوں کو للکارا اور حیدرآباد میں پہلی جنگ آزادی کی قیادت کی

یہ محاورہ اکثر آپ نے سنا ہوگا کہ ’بڑے طرم خان بنے پھرتے ہو‘ یا ’تم کون سے طرم خان ہو‘۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ آخر یہ طرم خان کون تھے اور انہوں نے ایسا کیا کارنامہ انجام دیا تھا کہ ان کی بہادری سے متعلق محاورہ عام ہے۔ طرم خان کا اصل نام طرے باز خان تھا۔ Turum Khan who challenged the British - led the first independence struggle in Hyderabad

طرم خان نے انگریزوں کو للکارا اور حیدرآباد میں پہلی جنگ آزادی کی قیادت کی
طرم خان نے انگریزوں کو للکارا اور حیدرآباد میں پہلی جنگ آزادی کی قیادت کی
author img

By

Published : Aug 10, 2022, 12:41 PM IST

Updated : Aug 10, 2022, 1:02 PM IST

اس مشہور محاورے کا تعلق 1857 کی جنگ آزادی سے رہا ہے جبکہ اس وقت ریاستِ حیدرآباد دکن میں نظام کی حکمرانی تھی جو برطانیہ حکومت کے اتحادی تھے لیکن حیدرآباد ریاست میں ایسے متعدد باغی موجود تھے جنہوں نے انگریزی سامراجیت کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا تھا۔ Turum Khan who challenged the British - led the first independence struggle in Hyderabad

حیدرآباد کے بیگم بازار میں رہنے والا ایک عام سپاہی طور باز خان نے نہ صرف باغیوں کی قیادت کی بلکہ اس نے چھ ہزار حامیوں کو لیکر برٹش ریزیڈنسی پر حملہ کردیا تھا۔ جنگ آزادی کے شعلے جب میرٹھ سے حیدر آباد پہنچتے ہیں تو یہاں بھی انگریز کے خلاف بغاوت کے حق میں ماحول سازگار ہوتا گیا اور نظام پر بھی اس جنگ میں شامل ہونے کےلیے دباؤ میں اضافہ ہوتا رہا۔ نظام نے پہلے ہی انگریزوں کی حمایت کا اعلان کرچکے تھے تاہم ریاست کے متعدد افراد نے جنگ آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

1857 میں جب جنگ آزادی کے شعلے بھڑک اٹھے تو نظام کی فوج میں بھی انگریز کے خلاف مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوا اور جب بغاوت کو کچلنے کےلیے کہا گیا تو جمعدار چھیدا خان نے انکار کر دیا کیونکہ جمعدار چھیدا خان، مغلوں کے خلاف انگریز کا ساتھ دینا نہیں چاہتا تھا جسے بعد میں 15 ساتھیوں کے ساتھ حیدرآباد میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس کی اطلاع جب طرے باز خان کو ملی تو اس نے باغیوں کی قیادت کرتے ہوئے بیگم بازار میں جہاں جمعدار چھیدا خان کو قید رکھا گیا تھا اپنے پانچ ہزار ساتھیوں کے ساتھ حملہ کردیا۔

حملہ میں طرے باز خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر انگریز ریزیڈنسی کی دیوار توڑ کر اندر داخل ہوئے جبکہ اس موقع پر شدید تصادم ہوا اور کئی باعی مارے گئے۔ طرے باز خان یہاں سے فرار ہونے میں کامیاب رہا جسے بعد میں گرفتار کرکے عمر قید کی سزا دے کر جزائر انڈیمان (کالا پانی) بھیج دیا گیا لیکن وہ 18 جنوری 1857 کو جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ خبر پا کر انگریز انتظامیہ میں دہشت میں آگئے اور طرے باز خان کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر پانچ ہزار روپئے کی خطیر رقم کے انعام کا اعلان کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: 75 Years of Independence: تلنگانہ میں دو ہفتوں تک طلبا کو فلم 'گاندھی' دکھائی جائے گی

آخر کار 24 جنوری کو نظام کے فوجی دستے نے طرے باز خان کو ڈھونڈ کر مار دیا۔ اس کی لاش کو شہر منتقل کیا گیا اور انگریز ریزڈنسی کے سامنے برہنہ کرکے درخت سے لٹکا دیا گیا۔ طرے باز خان نے اپنے پیچھے شجاعت و بہادری کی وہ مثال چھوڑی ہے جسے آج بھی محاورہ کے ذریعہ یاد کیا جاتا ہے اور وہ آج بھی تاریخ کے ابواب میں زندہ ہیں۔

اس مشہور محاورے کا تعلق 1857 کی جنگ آزادی سے رہا ہے جبکہ اس وقت ریاستِ حیدرآباد دکن میں نظام کی حکمرانی تھی جو برطانیہ حکومت کے اتحادی تھے لیکن حیدرآباد ریاست میں ایسے متعدد باغی موجود تھے جنہوں نے انگریزی سامراجیت کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا تھا۔ Turum Khan who challenged the British - led the first independence struggle in Hyderabad

حیدرآباد کے بیگم بازار میں رہنے والا ایک عام سپاہی طور باز خان نے نہ صرف باغیوں کی قیادت کی بلکہ اس نے چھ ہزار حامیوں کو لیکر برٹش ریزیڈنسی پر حملہ کردیا تھا۔ جنگ آزادی کے شعلے جب میرٹھ سے حیدر آباد پہنچتے ہیں تو یہاں بھی انگریز کے خلاف بغاوت کے حق میں ماحول سازگار ہوتا گیا اور نظام پر بھی اس جنگ میں شامل ہونے کےلیے دباؤ میں اضافہ ہوتا رہا۔ نظام نے پہلے ہی انگریزوں کی حمایت کا اعلان کرچکے تھے تاہم ریاست کے متعدد افراد نے جنگ آزادی کی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

1857 میں جب جنگ آزادی کے شعلے بھڑک اٹھے تو نظام کی فوج میں بھی انگریز کے خلاف مزاحمت کا جذبہ پیدا ہوا اور جب بغاوت کو کچلنے کےلیے کہا گیا تو جمعدار چھیدا خان نے انکار کر دیا کیونکہ جمعدار چھیدا خان، مغلوں کے خلاف انگریز کا ساتھ دینا نہیں چاہتا تھا جسے بعد میں 15 ساتھیوں کے ساتھ حیدرآباد میں گرفتار کرلیا گیا۔ اس کی اطلاع جب طرے باز خان کو ملی تو اس نے باغیوں کی قیادت کرتے ہوئے بیگم بازار میں جہاں جمعدار چھیدا خان کو قید رکھا گیا تھا اپنے پانچ ہزار ساتھیوں کے ساتھ حملہ کردیا۔

حملہ میں طرے باز خان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ملکر انگریز ریزیڈنسی کی دیوار توڑ کر اندر داخل ہوئے جبکہ اس موقع پر شدید تصادم ہوا اور کئی باعی مارے گئے۔ طرے باز خان یہاں سے فرار ہونے میں کامیاب رہا جسے بعد میں گرفتار کرکے عمر قید کی سزا دے کر جزائر انڈیمان (کالا پانی) بھیج دیا گیا لیکن وہ 18 جنوری 1857 کو جیل سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔ یہ خبر پا کر انگریز انتظامیہ میں دہشت میں آگئے اور طرے باز خان کو زندہ یا مردہ گرفتار کرنے پر پانچ ہزار روپئے کی خطیر رقم کے انعام کا اعلان کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: 75 Years of Independence: تلنگانہ میں دو ہفتوں تک طلبا کو فلم 'گاندھی' دکھائی جائے گی

آخر کار 24 جنوری کو نظام کے فوجی دستے نے طرے باز خان کو ڈھونڈ کر مار دیا۔ اس کی لاش کو شہر منتقل کیا گیا اور انگریز ریزڈنسی کے سامنے برہنہ کرکے درخت سے لٹکا دیا گیا۔ طرے باز خان نے اپنے پیچھے شجاعت و بہادری کی وہ مثال چھوڑی ہے جسے آج بھی محاورہ کے ذریعہ یاد کیا جاتا ہے اور وہ آج بھی تاریخ کے ابواب میں زندہ ہیں۔

Last Updated : Aug 10, 2022, 1:02 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.