محمود علی نے کہا کہ ٹی آر ایس پارٹی نے کانگریس سے اتحاد کو ختم کرکے مسلم ریزرویشن کے لیے دباؤ ڈالا تھا تاہم ٹی آر ایس شروع سے ہی مسلمانوں کو آبادی کے لحاظ سے 12 فیصد تحفظات فراہم کرنے کےلیے کوشاں ہے۔ انہوں نے کہا کہ کے سی آر حکومت نے مسسلمانوں کے لیے 12% ریزرویشن کی بل کو تلنگانہ اسمبلی اور کونسل میں پاس کروایا ، گورنر سے منظوری حاصل کی گئی ہے۔ مگر مرکزی حکومت نے اس کو پینڈنگ کر رکھاہے۔ کانگریس حکومت نے 48 سالہ دور حکومت میں مسلمانوں کے ساتھ حقیقی بھلائی نہیں کی، بلکہ ہمیشہ مسلمانوں کے ووٹ کا استعمال کرکے ان کا استحصال کیا۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس دور حکومت میں تلنگانہ میں کئی فرقہ وارانہ فسادات رونما ہوئے جس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔وزیر موصوف نے کانگریس کی 48 سالہ اور ٹی آر ایس کی 7 سالہ دورِ حکومت کا موازنہ کرتے ہوئے کہا کہ ٹی آر ایس حکومت نے اپنے سات سالہ دور حکومت میں ایسے کارنامے انجام دئے ہیں جسے کانگریس نے اپنے 48 سالہ دورِ حکومت میں نہیں کیا۔ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کانگریس دورِحکومت میں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس دور حکومت میں تلنگانہ میں مسلم مینارٹی کے لیے صرف 12 ریسیڈینشیل اسکول تھے ۔ جن میں 2000 طلباء زیر تعلیم تھے جبکہ کے سی آر حکومت نے اپنے سات سالہ دور حکومت میں 204 نئے ریسیڈینشیل اسکول قائم کئے ، جن میں 1,14,440 طلباء تعلیم حاصل کررہے ہیں اوران تمام اسکولوں کو انٹرمیڈیٹ تک اپ گریڈ کیا گیا ہے جس سے مسلمانوں کی تعلیمی میدان میں کافی ترقی ہوئی ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا کہ کانگریس حکومت نے مسلمانوں کے لیے دس سال میں 1000 کروڑ روپئیے بھی خرچ نہیں کئے۔ جبکہ ٹی آر ایس حکومت نے اپنے سات سالہ دورحکومت میں 6692 کروڑ روپئیے خرچ کئے ہیں۔اور کہا کہ کانگریس حکومت نے چند منتخبہ اضلاع میں ہی اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا، مگر عمل کچھ نہیں کیا۔ جبکہ ٹی آر ایس حکومت نے ریاست بھر کے 33 اضلاع میں اردو کو نہ صرف دوسری سرکاری زبان قرار دیا بلکہ اس پر عمل بھی کیا جارہا ہے۔ ٹی آر ایس حکومت نے اردو کو روزگار سےجوڑتے ہوئے ملک بھرمیں پہلی مرتبہ 66 اردو آفیسروں کا تقرر عمل میں لایا۔اور حال ہی میں 80,000 آسامیوں کی بھرتی کا اعلان کیا گیا ۔ اور یہ بھی اعلان کیا کہ تمام جائیدادوں کے پرچہ سوالات اردو میں شائع کئے جائیں گے تاکہ اردو والوں کے ساتھ انصاف کیا جاسکے۔
محمد محمود علی نے کہا کہ کانگریس دورحکومت میں صرف 200 روپئیے وظیفہ دیا جاتا تھا۔ جب کہ کے سی آر نے اس میں 10 گناہ اضافہ کیا۔ اور وظیفہ کی رقم2,016/- روپیے کردیا۔ اور ملک بھر میں پہلی مرتبہ بیواؤں کو 2,016/- روپئیے وظیفہ جاری کیا گیا۔علاوہ ازیں معذورین کو ماہانہ 3000/- روپئیے بطور و وظیفہ بھی دیا جارہا ہے۔انہوں نے ائمہ و موذنین کے مشاہیرہ کے متلق کہا کہ کانگریس حکومت نے کبھی بھی اس طرف توجہ نہیں کی۔ جبکہ ٹی آر ایس حکومت نے 10,000 ائمہ و موذنین کو ماہانہ فی کس 5000 روپئیے دے رہی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ 2,235مسلم طلباء کو اوور سیز اسکالر شپ جاری کی گئی، 2,11,068 غریب مسلم لڑکیوں کی شادی کے لیے خطیررقم جاری کی گئی۔فی الوقت ہر لڑکی کے والد ین کو 1,00,116/- روپئیے دئے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کانگریس حکومت، مرکز اور ریاست میں رہنے کے باوجود کالیشورم پراجکٹ اور مسلم ریزرویشن کو کامیابی نہیں دلا سکی۔جس کی وجہ سے عدالتی کارروائی جاری ہے۔ جبکہ کے سی آر نے پڑوسی ریاست سے معاہدہ کرکے کالیشورم پراجکٹ کی تعمیر کروائی جس سے کھیتوں کو پانی مہیا کیا جارہا ہے اور پینے کے پانی کو گھر گھر پہنچانے میں کامیابی حاصل کی۔کانگریس دور میں بجلی کی کٹوتی سے ہر کوئی پریشان تھا مگر کے سی آر حکومت نے چوبیس گھنٹے بجلی کو ممکن بنایا ہے۔ وزیر موصوف نے وقف جائیدودوں کے بارے میں کہا کہ کانگریس حکومت نے وقف زمینات کی کبھی بھی حفاظت نہیں کی۔ بلکہ سینکڑوں ایکڑ زمین فروخت کی ۔ بالخصوص Lanco Hills کی زمین کو کوڑیوں کے دام میں فروخت کیا گیا۔ اس کے برخلاف کے سی آر حکومت، اوقافی جائیدادوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے سنجیدہ ہے۔ تلنگانہ حکومت میں کوئی زمین فروخت نہیں کی گئی اور نہ ہی اس کا غلط استعمال کیا گیا۔
محمو علی نے کہا کہ کے سی آر حکومت نے وقف جائیدادوں پر غیر مجاز رجسٹریشن کو روکنے کے لیے تمام اوقافی جائیدادوں کو آٹو لاک کرتے ہوئے section 22A (I) (c) کے رجسٹریشن ایکٹ کے تحت روک لگادی گئی۔ تمام متعلقہ حکام کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ وقف جائیدادوں کے متعلق تعمیر کے لیے تعمیری اجازت نامہ جاری نہ کریں۔ تلنگانہ وقف بورڈ ر نے ریاست کی وقف اراضیات،جائیدادوں اور ادارہ جات کے تحفظ و معائنہ کے لیے ڈی ایس پی کی صدارت میں ایک ٹاسک فورس ٹیم تشکیل دی ہے۔وقف جائیداد وں کی نگرانی کے لیے حکومت تلنگانہ نے ضلع کلکٹر کی صدر نشینی میں ضلع کے محکمہ جات ریونیو،پولیس،بلدیہ، رجسٹریشن کو کمیٹی کے ارکان کے طور پر شامل کرتے ہوئے ڈسٹرکٹ وقف پروٹیکشن اینڈ کوآرڈینیشن کمیٹی تشکیل دی ہے۔ وقف جائیدادوں پر ناجائز قبضوں اور خرید و فروخت کی تحقیقات کے لیے وزیر اعلیٰ کے سی آر نے CB-CID کو ذمہ داری سونپی ہے۔CB-CID نے تحقیقات کی کارروائی کا آغاز کیا ہے اور تلنگانہ کے 10 متحدہ اضلاع میں 10 ٹیمیں تشکیل دی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ وقف بورڈ کو ایک میمو جاری کرتے ہوئے وقف جائیدادوں کی تفصیلات طلب کی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:
KCR Ultimatum to Modi Govt: تلنگانہ سے دھان کی خریدی کے مسئلہ پر مرکز کو 24 گھنٹے کا الٹی میٹم
وزیر داخلہ نے کہا کہ کے سی آر حکومت نے اپنے سات سالہ دور حکومت میں ایسے کارنامے انجام دئے ہیں جسے پچھلی حکومتوں نے اپنے 60 سالوں میں نہیں کیا۔انہوں نے کانگریس قائدین کو تلنگانہ حکومت کے خلاف بے بنیاد اور غیر ضروری الزامات سے گریز کرنے اور عوام میں شکوک پیدا کرنے سے باز آنے کو کہا۔اور کہا کہ کانگریس قائدین کی غیر ذمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے کانگریس حکومت مسلسل اپنا اقتدار کھورہی ہے۔ وزیر داخلہ نے کہاکہ حکومت کی جانب سے منعقدہ افطار پارٹی سےہندو مسلم بھائی چارگی اور گنگا جمنی تہذیب کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ اس کے خلاف ریمارک کرنا گویا آپسی اتحاد کے خلاف کام کرنے کے برابر ہے۔ انہوں نے علماء، مشائخین، ائمہ اور دیگر عوام سے اپیل کی کہ وہ حکومت کی جانب سے منعقدہ افطار پارٹی اور گفٹ پیاکٹس اسکیم میں شرکت کرکے اس کو کامیاب بنائیں اور غریب مسلمانوں کوفائدہ پہنچائیں۔