ETV Bharat / state

اختر حسن مرحوم کی صحافتی ادبی و سیاسی خدمات کو خراج عقیدت - شجاعت علی راشد

ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد کی شائستہ تہذیب کی نمائندہ شخصیت رانی اندرا دیوی دھن راج گیر نے ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد کی مرتبہ اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں 'کی رسم اجراء انجام دی۔

اختر حسن مرحوم کی صحافتی ادبی و سیاسی خدمات کو خراج عقیدت
author img

By

Published : Nov 19, 2019, 3:31 PM IST

پروفیسر فاطمہ بیگم پروین نے اپنی صدارتی تقریب میں کہا کہ 'آج کے اس پروگرام میں ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے ماضی، حال اور مستقبل کے نمائندے موجود ہیں جنہیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اردو ختم ہو رہی ہے یا اردو کا مستقبل تاریک ہے۔ یہ محفل بتاتی ہے کہ اردو کا مستقبل کتنا تابناک ہے'۔

ویڈیو : اختر حسن مرحوم کی صحافتی ادبی و سیاسی خدمات کو خراج عقیدت

مصروف صحافی عزیز احمد نے کہا کہ 'اختر حسن کے ساتھ بلٹز میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ صحافی، ادیب اور سماجی جہدکار کے علاوہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ وہ اختلاف رکھتے تھے لیکن رویہ جارحانہ نہیں تھا۔ وہ نتائج کی پرواہ کئے بنا جہد مسلسل کرتے تھے۔ انہوں نے صحافت کو شرافت سکھائی تھی۔ انہوں نے شجاعت علی راشد کو مبارکباد پیش کی کہ انہوں نے یہ کتاب مرتب کرکے عظیم خدمات انجام دیں۔

اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں '
اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں '

رانی اندرا دیوی دھن راج گیر نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'اختر حسن مرحوم سے ان کے دیرینہ روابط رہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تقریب میں اختر حسن کے خاندان سے مل کر ایسا لگا جیسے میں پرانے دور میں واپس چلی گئی ہوں اور آج یہاں آپ تمام کو سن کر لگتا ہے کہ زبان کیسے جوان ہوتی ہے!'

اختر حسن مرحوم کی صحافتی ادبی و سیاسی خدمات کو خراج عقیدت
اختر حسن مرحوم کی صحافتی ادبی و سیاسی خدمات کو خراج عقیدت

معروف ادیب و طنز و مزاح نگار مجتبی حسین نے کہا کہ 'اختر بھائی اور ریاست بھابھی سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اختر بھائی نے انہیں 'بلٹز' رسالہ میں بہت چھاپا۔ آج ساری باتیں خواب لگتی ہیں۔ شجاعت نے اس کتاب کو شائع کرکے اس دور کو محفوظ کردیا'۔

اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں '
اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں '

اختر حسن کا پیام سے جو لگاؤ تھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیام اختر حسن کی محبوبہ تھی عشق تھا جنون تھا۔ آج یہ کتاب کچھ یادیں کچھ باتیں ایسا جلوہ بکھیر رہی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ آج کی کتاب ہے یا کل کی۔

عرشی اختر نے اپنے والد کے ساتھ گزارے ہوئے واقعات کو بہت ہی پرلطف انداز میں پیش کیا جس میں لطیفے اور اپنی اولاد کے بارے میں اختر حسن کے ذریعہ کی گئی پیشن گوئیوں کا بھی ذکر تھا جو مستقبل میں سچ ثابت ہوئیں۔

ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد کی مرتبہ اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں 'کی رسم اجراء
ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد کی مرتبہ اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں 'کی رسم اجراء

ڈاکٹر شجاعت علی راشد نے کہا کہ 'ایمن کی ایماء پر انہوں نے اس کتاب کو شائع کرنے کی ذمہ داری قبول کی اور اس کو ترتیب دینا ان کے لئے باعث اعزاز ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ انہوں نے کہا کہ اختر حسن مرحوم کی یادوں پر مشتمل 23 آڈیو کیسٹس پروفیسر مغنی تبسم نے ریکارڈ کروائے تھے اگر وہ مل جائیں تو اُسے کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں شائع کیا جائے گا'۔

مزید پڑھیں : 'مسلم مجاہدین آزادی پر تلگو زبان میں کتابوں کی اشد ضرورت'

حیدرآباد میں واقع میڈیا پلس آڈیٹوریم میں گواہ اور میڈیا پلس کے زیر اہتمام منعقدہ اس تقریب رونمائی کی صدارت پروفیسر فاطمہ بیگم پروین نے کی۔

پدم شری مجتبیٰ حسین عزیز احمد جوائنٹ ایڈیٹر اعتماد، اختر ایمن، عرشی اختر، ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، سید خالد شہباز اور ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد شہ نشین پر موجود تھے۔

پروفیسر فاطمہ بیگم پروین نے اپنی صدارتی تقریب میں کہا کہ 'آج کے اس پروگرام میں ہر شعبہ حیات سے تعلق رکھنے والے ماضی، حال اور مستقبل کے نمائندے موجود ہیں جنہیں دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ اردو ختم ہو رہی ہے یا اردو کا مستقبل تاریک ہے۔ یہ محفل بتاتی ہے کہ اردو کا مستقبل کتنا تابناک ہے'۔

ویڈیو : اختر حسن مرحوم کی صحافتی ادبی و سیاسی خدمات کو خراج عقیدت

مصروف صحافی عزیز احمد نے کہا کہ 'اختر حسن کے ساتھ بلٹز میں کام کرنے کا موقع ملا تھا۔ صحافی، ادیب اور سماجی جہدکار کے علاوہ وہ ایک عظیم انسان تھے۔ وہ اختلاف رکھتے تھے لیکن رویہ جارحانہ نہیں تھا۔ وہ نتائج کی پرواہ کئے بنا جہد مسلسل کرتے تھے۔ انہوں نے صحافت کو شرافت سکھائی تھی۔ انہوں نے شجاعت علی راشد کو مبارکباد پیش کی کہ انہوں نے یہ کتاب مرتب کرکے عظیم خدمات انجام دیں۔

اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں '
اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں '

رانی اندرا دیوی دھن راج گیر نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 'اختر حسن مرحوم سے ان کے دیرینہ روابط رہے۔ انہوں نے کہا کہ اس تقریب میں اختر حسن کے خاندان سے مل کر ایسا لگا جیسے میں پرانے دور میں واپس چلی گئی ہوں اور آج یہاں آپ تمام کو سن کر لگتا ہے کہ زبان کیسے جوان ہوتی ہے!'

اختر حسن مرحوم کی صحافتی ادبی و سیاسی خدمات کو خراج عقیدت
اختر حسن مرحوم کی صحافتی ادبی و سیاسی خدمات کو خراج عقیدت

معروف ادیب و طنز و مزاح نگار مجتبی حسین نے کہا کہ 'اختر بھائی اور ریاست بھابھی سے میں نے بہت کچھ سیکھا۔ اختر بھائی نے انہیں 'بلٹز' رسالہ میں بہت چھاپا۔ آج ساری باتیں خواب لگتی ہیں۔ شجاعت نے اس کتاب کو شائع کرکے اس دور کو محفوظ کردیا'۔

اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں '
اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں '

اختر حسن کا پیام سے جو لگاؤ تھا اس کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیام اختر حسن کی محبوبہ تھی عشق تھا جنون تھا۔ آج یہ کتاب کچھ یادیں کچھ باتیں ایسا جلوہ بکھیر رہی ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ آج کی کتاب ہے یا کل کی۔

عرشی اختر نے اپنے والد کے ساتھ گزارے ہوئے واقعات کو بہت ہی پرلطف انداز میں پیش کیا جس میں لطیفے اور اپنی اولاد کے بارے میں اختر حسن کے ذریعہ کی گئی پیشن گوئیوں کا بھی ذکر تھا جو مستقبل میں سچ ثابت ہوئیں۔

ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد کی مرتبہ اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں 'کی رسم اجراء
ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد کی مرتبہ اختر حسن مرحوم کی خود نوشت سوانح حیات 'کچھ یادیں کچھ باتیں 'کی رسم اجراء

ڈاکٹر شجاعت علی راشد نے کہا کہ 'ایمن کی ایماء پر انہوں نے اس کتاب کو شائع کرنے کی ذمہ داری قبول کی اور اس کو ترتیب دینا ان کے لئے باعث اعزاز ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی رہے۔ انہوں نے کہا کہ اختر حسن مرحوم کی یادوں پر مشتمل 23 آڈیو کیسٹس پروفیسر مغنی تبسم نے ریکارڈ کروائے تھے اگر وہ مل جائیں تو اُسے کتاب کے دوسرے ایڈیشن میں شائع کیا جائے گا'۔

مزید پڑھیں : 'مسلم مجاہدین آزادی پر تلگو زبان میں کتابوں کی اشد ضرورت'

حیدرآباد میں واقع میڈیا پلس آڈیٹوریم میں گواہ اور میڈیا پلس کے زیر اہتمام منعقدہ اس تقریب رونمائی کی صدارت پروفیسر فاطمہ بیگم پروین نے کی۔

پدم شری مجتبیٰ حسین عزیز احمد جوائنٹ ایڈیٹر اعتماد، اختر ایمن، عرشی اختر، ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز، سید خالد شہباز اور ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد شہ نشین پر موجود تھے۔

Intro:New Delhi: By becoming the first leader to congratulate Gotabaya Rajpaksa, the newly elected Sri Lankan President, PM Modi has sent a clear signal that his administration is not willing to leave any loose ends in the geo-political slugfest with China.


Body:Despite its unpleasant history with Mahinda Rajapaksa, former President of Ceylon and elder brother of Gotabaya, both leaders have hinted towards strengthening relationship. Both leaders have also agreed to work together on development and security. A stand different from Mahinda Rajapaksa's administration with whom things soared due to its economic and security proximity with China.

Observer Research Foundation's Director Research Professor Harsh Pant hoped that the new administration in Colombo will have new approach towards New Delhi as it can't be wished away from geo-political calculus of Sri Lanka.

'In the past, there had been tensions between the Rajapaksas and India. But in the recent past, we have seen greater degree of back and forth between both sides. India recently hosted the Rajapaksas,' ORF Director Research said.








Conclusion:In 2014, things between India and Sri Lanka reached low when Mahinda Rajapaksa administration had allowed Chinese submarines to dock in Sri Lanka without informing New Delhi. Not only this, Ceylon borrowed heavily from Beijing for infrastructure projects.

Under former President Sirisena's tenure, things looked bright for New Delhi as it was able to fetch several port and airport projects. But according to Professor Pant, Chinese imprints in the island nation are too big and despite President Sirisena's attempt they weren't able to contain it.


ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.