حیدر آباد: یونائیڈ مسلم فورم نے یونیفارم سیول کوڈ کے مسئلہ پر حکومت تلنگانہ کے موقف کی ستائش کی ہے اور اس سلسلہ میں بیرسٹر اسدالدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد السلمین و رکن پارلیمنٹ حیدر آباد کی نمائندگی پر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ فورم کے ذمہ داران مولانا مفتی سید صادق محی الدین فہیم، مولانا سید شاہ علی اکبر نظام الدین حسینی صابری، مولانا شاہ محمد جمال الرحمن مفتاحی، مولانا میر قطب الدین علی چشتی، ضیا الدین نیر، سید منیر الدین احمد مختار ( جنرل سکریٹری) مولانا سید شاہ ظہیر الدین علی صوفی قادری، مولانا محمد شفیق عالم خان جامعی، مولانا سید مسعود حسین مجتهدی، مولانا سید احمد احسینی سعید قادری، مولانا سید تقی رضا عابدی، مولانا ابوطالب اخباری، مولانا سید شاہ فضل الله قادری الموسوی، مولانا میر فراست علی شطاری، ایم اے ماجد، مولانا شجاع الدین افتخاری حقانی پاشاہ، مولانا ظفر احمد جمیل حسامی، مولانا عبدالغفار خان، سلامی، بادشاہ محی الدین و دیگر ذمہ داران نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا کہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی و دیگرا کا برین ملت کی موجودگی میں یونیفارم سیول کوڈ کے موضوع پر چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راو سے جو گفتگو کی گئی وہ امید افزا ہے۔
صدر مسلم پرسنل لا بورڈ کو چیف منسٹر کی جانب سے تہنیت پیش کرنے پر فورم کے ذمہ داران خیر مقدم کرتے ہیں۔ تلنگانہ حکومت کی جانب سے یونیفارم سیول کوڈ کو مسترد کئے جانے اور اس سلسلہ میں مختلف ہم خیال جماعتوں کے ساتھ مشاورت کرنے کا اعلان اس خصوص میں قومی اتفاق رائے کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ فورم کے ذمہ داروں کا یہ خیال ہے کہ یونیفارم سیول کوڈ کے حوالے سے مرکز میں برسراقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی ملک کی تکثیریت وقومی یکجہتی کو بگاڑنا چاہتی ہے۔ یہ قانون ملک کے تمام طبقات بشمول اکثریتی ہند و طبقہ کے لئے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا۔
مزید پڑھیں: Asaduddin Owaisi on UCC 'یکساں سیول کوڈ ملک کے حق میں صحیح نہیں'
اس قانون کی تجویز کو موجودہ لاء کمیشن نے پیش کرتے ہوئے عوامی رائے طلب کی ہے۔ جبکہ اس سے پہلے والے لاء کمیشن نے یہ واضح کر دیا کہ یہ ملک کے لئے ضروری نہیں ہے۔ اس کی کسی نے خواہش ظاہر کی ہے۔ یہاں اس باب کو ختم کر دینا چاہیے تھا۔لیکن جس طرح سیاسی مقاصد کے لئے اس موضوع کا استعمال کیا جارہا ہے، یہ ملک کے متنوع سماجی ڈھانچہ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ فورم نے یونیفارم سیول کوڈ کے خلاف قانونی و دستوری جدو جہد میں دیگر طبقات کو بھی شامل رکھنے کی ضرورت ظاہر کی ہے اور اس امید کا اظہار کیا ہے، کہ حکومت اس تجویز سے دستبرداری اختیار کرے گی۔