حافظ پیر شبیر احمد نے بتایا کہ کے سی آر نے کہا کہ دھرانی پورٹل کے آغاز کا مقصد اراضیات کے ریکاڈس کو شفاف بنانا تھا مگر دھرانی پورٹل میں اندراج کے نام پر بعض اضلاع سے یہ اطلاعات مل رہی ہے کہ سرکاری اہلکار سروے کرتے ہوئے گھر گھر پہنچ کر گھروں سے اور ارکان خاندان کے متعلق تفصیلات اکھٹا کررہا ہے جس سے اضلاع کے مسلمانوں میں تشویش پائی جارہی ہے۔
ریاستی جمعیتہ علماء تلنگانہ حکومت سے پرزور مطالبہ کرتی ہے کہ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ اس پر وضاحت کریں اور عوام میں پائی جانی والی تشویش کو دور کرے کیونکہ حکومت نے صرف ایل آر ایس اسکیم کا اعلان کیا ہے اس کا اطلاق صرف زرعی وغیر زرعی ارضیات وجائیدادوں پر ہوتا ہے اس اسکیم کا گھروں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ گھروں کیلئے بی آر ایس اسکیم ہوتی ہے۔یہ معاملہ ہائیکورٹ میں ابھی زیر التواء ہے حکومت کو چاہئے کہ وہ فورا سرکاری اہلکاروں سے اس کی وجوہات طلب کرے۔اگر حکومت کی جانب سے کوئی سرکیولر جاری کیا گیا تو اس کے تعلق سے عوام میں شعور بیدار کریں۔
دھرانی پورٹل میں اندراج کے نام پر گھر گھر پہونچ کر جو تفصیل حاصل کررہی ہیں جو درجہ ذیل ہیں (1) مکان کے رجسٹر یشن دستاویزات یا پٹہ پاس بک کی تفصیلات (2) مالک مکان اور اس کے ارکان خاندان کے آدھا کارڈس (3) شناختی کاڈر (4) مالک مکان کی پاسپورٹ تصویر (5) ٹیکس رسید (6) نل اور بجلی کے بل کی رسید (7) فوڈ سکیورٹی کاڈر (8) جن دھن بینک اکاؤنٹ پاس بک (9) جاب کاڈر کی تفصیلات (10) آسراپنشن کی تفصیلات (11) مالک مکان اور متعلقین کا مکمل پتہ (12) مالک مکان کا سیل فون نمبر (13) مکان کس سال تعمیر ہوا۔