حیدرآباد: تلنگانہ میں موجودہ رجحانات سے ایک بڑی ہلچل دکھائی نظر آ رہی ہے۔ کے سی آر کی بی آر ایس جو اپنے قیام کے بعد سے ہی ریاست تلنگانہ پر حکمرانی کر رہی ہے، پیچھے ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ اب تک کے رجحانات پر نظر ڈالیں تو تلنگانہ میں کانگریس حکومت بنانے جا رہی ہے۔ وہیں بی جے پی آٹھ سیٹوں پر آگے ہے۔ لیکن ان تین بڑی جماعتوں کے علاوہ تلنگانہ میں ایک اور فیکٹر بھی ہے۔ اور وہ ہے اویسی فیکٹر۔ حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ اسد الدین اویسی کی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) نے نو نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ ایم آئی ایم جن نو سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی ہے ان میں سے سات حیدرآباد میں ہیں۔ جب کہ اویسی حیدرآباد سے رکن پارلیمنٹ ہیں۔
ایم آئی ایم نے نامپلی، یاقوت پورہ، چندرائن گٹہ، چار مینار، بہادر پورہ، ملک پیٹ، کاروان، راجیندر نگر اور جوبلی ہلز میں امیدوار کھڑے کیے تھے۔ پارٹی ان نو میں سے چار سیٹ جیت گئی ہے جن میں ایک چار مینار کی سیٹ وہ جیت چکی ہے۔ احمد بن عبداللہ بلعلہ ملک پیٹ سے، میر ذوالفقار علی چار مینار سے جیت چکے ہیں، اکبر الدین اویسی چندرائن گٹہ سے جیتے اور محمد مبین بہادر پورہ سے کامیاب ہوئے ہیں۔ اسد الدین اویسی کے بھائی اکبر الدین اویسی تقریباً پچاس ہزار ووٹوں سے جیتے ہیں۔
واضح رہے کہ 2018 میں بھی اکبر الدین اویسی نے چندرائن گٹہ سے بڑی فتح حاصل کی تھی۔ جہاں انہیں 60 فیصد ووٹ ملے تھے۔ اسد اویسی کی پارٹی کو ریاست تلنگانہ میں کنگ میکر سمجھا جاتا ہے۔ انتخابی نتائج سے پہلے ہی یہ کہا جا رہا تھا کہ اگر کے سی آر، کی بی آر ایس اکثریت سے کم ہوتی ہے تو اویسی کی پارٹی ان کی حمایت کر سکتی ہے۔ تاہم اویسی کے کانگریس کے ساتھ جانے کے امکانات بہت کم ہیں۔ لیکن ایکزٹ پول آنے کے بعد اکبر الدین اویسی کا بیان کانگریس کے حق میں نرم دکھائی دیا تھا۔ مجلس نے جبلی ہلز میں کرکٹر اظہر الدین کے مقابلہ میں کمزور امیدوار راشد فراز الدین کو میدان میں اتارا تھا۔ لیکن راشد فراز الدین کوئی خاص نہیں کرسکے اور وہ یہاں سے چوتھے نمبر پر رہے۔ جبلی ہلز سے بی آر ایس اور اظہر الدین کے درمیان کڑا مقابلہ ہو رہا ہے۔