حیدرآباد کی شاہی اور تاریخی عمارتوں میں سے چار مینار کے دامن میں موجود ایک عاشور خانہ بھی ہے جس کی تعمیر چارمینار کے فورأ بعد کی گئی۔
اس عاشور خانے کی تعمیر اس وقت کے حکمراں قطب شاہ نے کرائی، جس کے باعث اسے بادشاہی عاشور خانے کے نام سے موسوم کیا گیا۔
اس عاشور خانے کی تعمیر خود بادشاہ نے اپنی نگرانی میں کروائی جس کی وجہ سے یہ عمارت فن تعمیر کا شاہکار بن گئی اور چار سو برس گزرنے کے بعد بھی سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ رہا ہے۔
اس عمارت میں ایرانی طرز پر خوبصورت رنگوں میں بہترین نقاشی کی گئی ہے۔ چینی تکنیک سے اس عمارت کے در و دیوار کو چکنی مٹی سے اس طرح پکایا گیا ہے کہ 100 برس قبل موسی ندی میں آنے والی طغیانی کے باوجود یہ عمارت اپنی جگہ برقرار رہی۔
اس تاریخی عاشور خانے کے مجاور و متولی عباس موسوی نے ای ٹی وی بھارت کو اس کی تاریخ کے حوالے سے بتایا کہ گولکنڈہ پر مغلوں فتح کے بعد چار سو برس قدیم یہ عاشور خانہ تقریبأ اسی برس تک بند رہا تاہم آصف جاہ دوم کے دور اقتدار میں اسے دوبارہ بحال کیا گیا۔
تاہم عباس موسوی نے بتایا کہ اس وقت سے اب تک یہ عاشور خانہ عقیدت مندوں سے آباد رہتا ہے محرم الحرام کے دوران یہاں 70 علم کھڑے کیے جاتے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ یہ بادشاہی عاشور خانہ حکومت اور محکمہ آثار قدیمہ کی نگرانی میں ہے۔ کچھ کام حکومت کی جانب سے کیے گئے ہیں لیکن مزید کام کیے جانے باقی ہیں، جس میں نقار خانے کی عمارت سب سے اہم ہے جو نہایت خستہ ہو چکی ہے۔ اس کی تزئین کے لیے حکومت کو فی الفور اقدامات کرنے چاہئیں۔