طلاق ثلاثہ بل کے پاس ہونے کے بعد اس بل کی مخالفت میں ملک بھر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں، دانشور اور سماجی کارکن اس بل کو خواتین کو مزید سخت مشکلات میں ڈالنے کے مترادف ٹھہرارہے ہیں۔
اس بل سے متعلق مختلف خیالات سامنے آ رہے ہیں۔ ایک طبقہ اس بل کو خواتین کے لیے مددگار بتا رہا ہے۔
وہیں ایک صحافی نے اس بات پر بھی حیرت کا اظہار کیا ہے کہ ایوان میں دیگر مسلم ارکان پارلیمان کو بحث میں حصہ لینے کے لیے کافی وقت نہیں دیا گیا جبکہ دوسری طرف ایم آئی ایم کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کو بحث میں حصہ لینے کے اضافی وقت دیے جانا کسی سازش کا حصہ ہے۔
خیال رہے لوک سبھا سے منظوری کے بعد مودی حکومت کے لیے اس بل کو ایوانِ بالا یعنی راجیہ سبھا سے منظور کروانا کافی مشکل کام تھا۔لیکن کچھ سیاسی پارٹیوں کے واک آوٹ کے بعد راجیہ سبھا میں اس کی منظوری آسان ہو گئی تھی۔
سنہ 2001 میں سپریم کورٹ نے ایک اکثریتی فیصلے میں مسلمانوں میں ایک ساتھ تین طلاق کے عمل کو غیر آئینی قرار دیدیا تھا ۔اور حکومت کو اس سلسلے میں نیا قانون بنانے کا حکم دیا تھا۔