پولیس کی بڑی تعداد نے ان نوجوانوں پر قابو پایا اور ان کو حراست میں لے لیا۔ پُرجوش نوجوانوں نے بھارت زندہ باد کے نعرے بھی لگائے۔ پولیس جب ان نوجوانوں کو حراست میں لے کر ان کو بس میں لے جا رہی تھی تو بعض برقعہ پوش خواتین نے ان کو لے جانے کی مخالفت کی اور پولیس کے رویہ پر برہمی ظاہر کی۔
بعض نوجوان سابق ریاست حیدرآباد کے آخری نواب میر عثمان علی خان کی تصویر والے پلے کارڈ بھی تھامے ہوئے تھے۔
بعض نوجوان ہاتھ میں ترنگا بھی لیے ہوئے تھے اور شہریت ترمیمی قانون، این آر سی کی مخالفت میں احتجاج کر رہے تھے۔ چارمینار کے قریب نئے سال کی تقاریب ہونے والی تھی کہ ان نوجوانوں نے اچانک پلے کارڈس کے ساتھ بڑے پیمانہ پر احتجاج کیا اور نعرے بازی شروع کر دی۔
پولیس نے ان نوجوانوں کو حراست میں لے لیا۔ سال نو کے موقع پر نئے شہر کے ٹینک بنڈ کے قریب بھی بڑے پیمانہ پر احتجاج کیا گیا۔ لوگ بڑے بڑے بینرس، پوسٹرس اور پلے کارڈس کے ساتھ مرکزی حکومت کے خلاف نعرے بازی اور احتجاج کر رہے تھے۔
چارمینار کے قریب احتجاج کرنے والے نوجوانوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 31دسمبر کی شب اس احتجاج کے ذریعہ وہ یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج میں حیدرآباد کے لوگ بھی خاموش نہیں ہیں۔