حیدرآباد: ریاست تلنگانہ کے ضلع سدی پیٹ کے گجویل قصبہ میں دو فرقوں کے درمیان فرقہ وارانہ تصادم کے سلسلے میں کم از کم 14 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ ان تمام کو عدالتی حراست میں بھیج دیا گیا ہے۔ میڈیا ادارہ سیاست سے بات کرتے ہوئے کمشنر آف پولیس این سویتھا نے کہا کہ اب تک آٹھ ایف آئی آر درج کی گئی ہیں اور تحقیقات ابھی جاری ہیں۔ سینئر پولیس افسر نے جھڑپوں میں دائیں بازو کی تنظیموں کے ملوث ہونے سے بھی انکار کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس واقعہ میں کوئی بھی دائیں بازو کی تنظیم ملوث نہیں ہے۔ ہم نے موجودہ تحقیقات کی بنیاد پر کئی افراد کو گرفتار کیا ہے۔
بتادیں کہ گجویل قصبہ گزشتہ تین دنوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی سے متاثرہ ہے۔ یہ منگل کو اس وقت شروع ہوا جب سنگا پور کے رہنے والے 24 سالہ محمد عمران کو مراٹھا حکمران شیواجی کے مجسمے کی مبینہ طور پر بے حرمتی کرنے پر گرفتار کیا گیا۔ الزام لگایا گیا کہ عمران نے مجسمے کے قریب پیشاب کیا جس سے مقامی لوگ مشتعل ہوگئے۔ واقعہ کے وقت نشے میں دھت عمران کو مقامی لوگوں نے پکڑا، مارا پیٹا اور تھانہ لے گئے۔
بھگت یوتھ ایسوسی ایشن کے ارکان کی شکایت پر عمران کو گرفتار کیا گیا اور دفعہ 294 (فحش حرکتیں اور گانے بجانا)، 294 (b) (عوامی جگہ پر فحش گانا یا الفاظ کہنا)، 295 (مذہبی جذبات کو مشتعل کرنے کا دانستہ ارادہ) اور تعزیرات ہند کی دفعہ 504 (اُکسانے کے لیے کسی کی توہین کرنا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ اسی دن گجویل پولیس نے عمران کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کرنے پر محمد ظہیر، محمد عقیل، محمد غوث، محمد چاند پاشا، محمد شارک خان، محمد حسین، محمد واجد، محمد لڈو شاہ رخ اور محمد کلیم کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا۔
مزید پڑھیں:۔ اندور: بھگوا ریلی سے فرقہ وارانہ کشیدگی، دفعہ 144 نافذ، 27 گرفتار
مجسمے کی مبینہ بے حرمتی کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی جس کے نتیجے میں ایک ہی دن دو مذہبی گروہوں میں تصادم ہوا۔ اس کے بعد مقامی بی جے پی، وی ایچ پی اور بجرنگ دل کے اراکین نے عمران کے خلاف کارروائی اور واقعے کی مکمل جانچ کا مطالبہ کرتے ہوئے چکا جام کردیا۔ انہوں نے اسے ہندوؤں کے جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے منصوبہ بند اقدام قرار دیا۔ وہیں گجویل پولیس نے اس سلسلے میں کارروائی کرتے ہوئے نوین، بیگم پیٹ سوامی، منوہر یادو اور دیگر لوگوں کے خلاف سڑک پر نعرے لگانے اور ٹریفک کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنے پر ایک اور ایف آئی آر درج کی ہے۔