شہریت (ترمیمی) قانون 2019 کے خلاف ملک بھر میں چل رہے احتجاج کی شروعات جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس سے ہوئی تھی۔ اس یونیورسٹی کے بانیوں میں سے ایک مولانا محمد علی جوہر بھی تھے۔
پیش ہے معروف مورخ فاورق ارگلی سے خاص گفتگو۔
شخصیت:
رام پور کے معزز و ممتاز خاندان میں مولانا محمد علی 10دسمبر 1878کو پیدا ہوئے، دو برس کی عمر میں ہی ان کے والد عبد العلی خاں کا انتقال ہوگیا، والدہ کی عمر بیوگی کے وقت 27 برس تھی، انہوں نے ابتدائی تعلیم کے بعد آٹھ برس علی گڑھ میں گزارکر بی اے کی ڈگری حاصل کی۔
شاعری:
مولانا محمد علی جوہر کی شاعری پر اگر نظر ڈالیں، تو ہمیں کچھ ایسے اشعار ضرور مل جاتے ہیں، جن کو ہم بہترین اشعار کا درجہ دے سکتے ہیں، مثال کے طور پر ان کے یہ دو اشعار جو آج بھی زبان زدِ خا ص و عام ہیں:
تو حید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ دو عالم سے خفا میرے لیے ہے
اور:
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
صحافت:
مولانا محمد علی جوہر کی صحافتی خدمات کے بارے میں معروف صحافی آصف جیلانی نے لکھا کہ 'مولانا محمد علی جوہر اپنی صحافت کے ناتے سب سے زیادہ یاد رکھے جائیں گے سے جس سے ان کی عملی زندگی کا آغاز ہوا۔ مولانا کو انگریزی اور اردو صحافت دونوں میں یکساں دسترس حاصل تھی اور آج بھی ان کا انگریزی ہفت روزہ کامریڈ اور اردو کا روز نامہ ہمدرد صحافت کی اعلی اقدار کی درخشاں مثال ہے'۔
برطانوی حکومت نے جب کلکتہ کے بجائے دہلی کو بھارت کی راجدھانی بنانے کا فیصلہ کیا تو محمد علی نے کامریڈ کا دفتر بھی 14؍ستمبر 1912کو دہلی میں منتقل کرلیا، اور 12 اکتوبر کو یہیں سے کامریڈ کا پہلا شمارہ شائع کیا، انہوں نے مسلمانوں کی آسانی کے لئے نقیب ہمدرد نامی اردو پرچہ کا اجرا کیا، جو بعد میں روزنامہ ہمدرد کے نام سے مشہور ہوا۔
بھارت کی عوام کو آزادی وطن کے لئے بیدار اور تیار کرنے کی غرض سے مولانا نے صحافت کو موثر ذریعہ بتایا، اس کے ساتھ ساتھ وہ تحریک خلافت کے لئے مسلسل اسفار کرتے رہے۔
تحریک خلافت :
تحریک خلافت نے ملک میں آزادی کی تڑپ پیدا کردی ہر فرد کے دل میں علی برادران کے لئے محبت جاگزیں ہوگئی، اس تحریک نے انگریزی اسکولوں، کالجوں اور سرکار کی نگرانی میں چلائے جانے والے تعلیمی اداروں کو چھوڑ دینا فرض قرار دے دیا، چنانچہ تعلیمی محاذ پر ترک موالات کے لئے مولانا محمد علی نے علی گڑھ کے ایم اے او کالج سے پہل کی۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ:
بالآخر 29 اکتوبر 2020 کو جمعہ کے دن ایم اے او کالج کی مسجد میں بعد نماز جمعہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی رسم افتتاح شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن کے ہاتھوں ادا ہوئی۔ حکیم اجمل خاں اولیں امیر جامعہ، مولانا محمد علی پہلے شیخ الجامعہ، حاجی موسی خاں سکریٹری، اور تصدق احمد شیروانی جوائنٹ سکریٹری مقرر ہوئے۔
قومی جدوجہد:
سنہ 1930 میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے مقصد سے جب مولانا محمد علی جوہر انگلینڈ گئے تو انھوں نے واضح لفظوں میں کہا کہ "تم انگریز میرے ملک کو آزاد نہیں کرو گے تو میں واپس نہیں جاؤں گا۔" بالآخر 4 جنوری 1931 میں لندن میں ہی ان کا انتقال ہوا، جس کے بعد انھیں فلسطین منتقل کیا گیا اور فلسطین ہی میں تدفین ہوئی۔
- مولانا کے مختلف اقوال کا ایک مختصر اقتباس قارئین کی خدمت میں پیش ہے:
- سب جانتے ہیں کہ میں اپنے ملک کو آزاد کرانے کے لئے ہندومسلم اتحاد کو ضروری سمجھتا ہوں اور ہمارا مذہب بھی ہم کو یہی تعلیم دیتا ہے ۔
- ہمارا سو راج تمام قوم کا راج ہونا چاہئے ۔
- یاد رکھو بز دل ہی ڈرتا ہے اور بزدل ہی دوسرے کے سامنے کمزوری ظاہر کرتا ہے ۔
- تعصب کی آگ جاہل اور ان پڑھ لوگوں کے دل میں نہیں بلکہ ان لوگوں کے سینہ میں ہیجان و تلاطم پیدا کئے ہوئے ہے جنہیں اپنی ڈگریوں اور اسنادات پر ناز ہے ۔
- دوستو! میری دعا ہے کہ خدا ہندوستان کو اپنے اتحاد واتفاق کی ایک جھلک پھر نصیب کرے میری دعا ہے کہ دونوں قومیں اتحاد کی وہ تصویر وآزادی کا منظر سامنے رکھیں جو اتحاد قومی کی فضا میں رکھ سکتے ہیں ۔
- میں سردار دو عالم رسول معظم کا امتی ہونے کی حیثیت سے دشمن سے اسو قت تک لڑوں گا جب تک اس ہتھیار سے اسی کو شکست زہ دیدوں ۔
- جس قوم کی تعداد 32 کروڑ ہے اس کے لئے تشدد کا استعمال بہت بڑی ذلت ہے تشدد کے ساتھ جو فتح حاصل کی جائیگی و تمام قوم کی فتح نہیں کہلائے گی بلکہ وہ صرف جنگجو طبقہ کی فتح قرار پائے گی ۔
- اختلافات دور کرنے کا بہترین علاج یہ ہے کہ دوسروں کی خطاؤں کو معاف کرنے اور بھول جانے کی صلاحیت پیدا کی جائے ۔
- مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں جانتا ہوں کہ لڑائی بری چیز ہے لیکن اس کے ساتھ میرا یہ اعتقاد بھی ہے کہ فتنہ اس سے بھی زیادہ بری چیز ہے ۔