خیال رہے کہ ماہ رمضان کے دوران مسجدوں میں خصوصی عبادتوں کا اہتمام، غربا میں اشیائے ضروریہ کی تقسیم کے علاوہ جمعۃ الوداع کا اہتمام کیا جاتا ہے لیکن رواں برس کورونا وبأ کے سبب سبھی چیزوں کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔
شہر میں رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی بازاروں میں قابل دید رونقیں ہوا کرتی تھیں، بیرون ممالک و ریاستوں سے لوگ رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی حیدرآباد کا رخ کیا کرتے تھے اور حیدرآبادی بریانی، ایرانی چائے، حلیم، دہی وڑا سمیت دیگر ذائقہ دار کھانوں سے لطف اندوز ہوتے۔
تاریخی مکہ مسجد میں افطار کے وقت کا منظر دیکھنے کے قابل ہوتا تھا کیونکہ یہاں مسجد میں افطار کے لیے ہزاروں افراد جمع ہوتے اور افطار کرتے تھے۔
اس ماہ میں مصروف تجارتی سرگرمیوں کے باوجود 20 رمضان کو شہادت حضرت علیؓ کے موقع پر ہوٹلوں کو بند رکھا جاتا تھا لیکن رواں برس مہلک وائرس کی وجہ سے رمضان المبارک کی رونقیں بالکل غائب ہو چکی ہیں۔
اب روزہ دار اپنے اہل خانہ کے ساتھ سحر و افطار، تراویح اور پنج وقتہ نمازیں اپنے گھر پر ادا کرے رہے ہیں۔
واضح رہے کہ تاریخی شہر حیدرآباد میں سنہ 1908ء میں ایک طغیانی آئی تھی جس کی وجہ سے شہر حیدرآباد ایک تالاب میں تبدیل ہو گیا تھا۔
اس طغیانی میں ہزاروں افراد کی موت واقع ہوئی تھی اور اس طغیانی کے نشان آج بھی موجود ہے، 112 برس گزرجانے کے بعد اب مہلک وائرس کی وجہ سے رمضان المبارک کی رونقیں ماند پڑگئی ہیں۔ اس سے قبل طغیانی کے سبب سنہ 1908ء میں مساجد میں نماز جمعہ ادا نہیں کی جارہی تھی اور بازاروں کو بند کردیا گیا تھا۔