گزشتہ روز یوآئی ڈی اے آئی نے کہا تھا کہ ریاستی پولیس کی جانب سے اس کے حیدرآباد کے دفتر کو یہ اطلاع ملی تھی کہ 127 افراد نے فرضی دستاویزات کے ذریعہ آدھار کارڈ حاصل کئے ہیں اور آدھار ایکٹ کے مطابق ایسے آدھار نمبرات کو منسوخ کیا جاسکتا ہے، اسی لیے حیدرآباد کے ریجنل دفتر نے ان 127 افراد کو نوٹس جاری کی تھی تاکہ وہ شخصی طور پر حاضر ہو کر آدھار نمبرحاصل کرنے کے دعوے کو ثابت کریں۔
اس تعلق سے جن افراد کو شہریت ثابت کرنے کی نوٹس جاری کی گئی ہے ان لوگوں کے عدالت کے دروازے پر دستک دی ہے۔
جن افراد کو نوٹس دی گئی ہے ان میں سے ایک عبدالستار خان نے ای ٹی وی بھارت سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک آٹو رکشا ڈرائیور ہیں اور جب انہیں شہریت ثابت کرنے کی نوٹس ملی تو وہ ڈر گئے تھے کیوں کہ ملک کے موجودہ حالات کے پیش نظر یہ بہت ہی سنگین معاملہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 'میرے پاس پاسپورٹ، آدھار کارڈ، جنم داخلہ حتی کہ میرے والد صاحب کے بھی دستاویزات موجود ہیں پھر بھی مجھے اس طرح کا نوٹس جاری کیا گیا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اس تعلق سے مجلس بچاؤ تحرک کے ترجمان سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ 'یہ ایک سوچہ سمجھی سازش ہے اور یو آئی ڈی اے آئی کو اس طرح کی اطلاع کس نے دی اور کس پولیس افسر نے یہ اطلاع اس کے خلاف کاروائی کی جائے۔
حالاںکہ یو آئی ڈی اے آئی نے یہ واضح کر دیا کہ اس نوٹس کا تعلق شہریت سے نہیں ہے۔
واضح رہے کہ حیدرآباد کے 127 افراد کو نوٹس جاری کرتے ہوئے انہیں حکم دیا گیا تھا کہ وہ 20 فروری کو حیدرآباد میں یو آئی ڈی اے آئی کے ڈپٹی ڈائیریکٹر کے سامنے پیش ہوں تا کہ اس سلسلہ میں عوامی سماعت کی جاسکے، درکار دستاویزات کے لیے انہیں اضافی وقت بھی دیا گیا تھا، اصل دستاویزات حاصل کرنے میں انہیں وقت درکار ہوگا اسی لیے یو آئی ڈی اے آئی نے شخصی سماعت مئی 2020 تک ملتوی کردی۔