اسلام میں یوم عاشورہ کی بڑی اہمیت و افادیت ہے۔نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سیدنا حسینؓ ابن علیؓ اور ان کے خانوادہ اور انصار کی شہادت کا ماتم کرتے ہیں۔ اسی مناسبت سے اگرچہ شہر کے مختلف مقامات پر شیعہ عقائد کے مطابق علم اور تعزیے نکالے جاتے ہیں تاہم پرانے شہر میں تاریخی مرکزی ماتمی جلوس نکالا جاتا ہے۔ صدیوں سے چلی آرہی روایات کے مطابق اس مرکزی ماتمی جلوس کا مرکز نگاہ ’’بی بی کا علم‘‘ ہوتا ہے جو ہاتھی پر برآمد ہوتا تھا لیکن اس سال ہائی کورٹ نے کورونا وائرس وباء کے پیش نظر احتیاطی تدابیر کے تحت صرف 15 لوگوں کو جلوس میں شرکت کی اجازات دی گئی-
صدیوں سے روایتی جلوس ہاتھی پر نکالا جاتا تھا لیکن آج پہلی بار ڈی سی ایم میں بی بی کے علم کو نکالا گیا۔ یہ علم دن میں دبیر پورہ میں واقع الاوہ بی بی سے برآمد ہوکر مختلف عاشور خانوں سے گذرتا ہوا براہ چارمینار، چادر گھاٹ پر اختتام پذیر ہوا۔
قطب شاہی دور میں یہ عاشور خانہ قلعہ گولکنڈہ میں واقع تھا جسے بعدازاں آصف جاہی دور حکومت میں الاوہ بی بی دبیر پور کو منتقل کیا گیا تھا۔ اس علم کو کئی شاہوں نے قیمتی نذرانے پیش کئے گئے۔ ناصر الدولہ نے کئی ہیرے نذر کئے تھے۔ نظام ہفتم میر عثمان علی خان بہادر نے اپنی والدہ محترمہ کی یاد میں اس علم کو 6 عدد ہیرے اور جواہرات نذر کئے تھے۔
یوم عاشورہ کے موقع پر حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے معقول انتظامات کئے گئے تھے۔