ETV Bharat / state

حسین ساگر جھیل، آلودگی اور گندگی کی آماجگاہ

author img

By

Published : Jul 1, 2019, 10:45 PM IST

Updated : Jul 1, 2019, 11:03 PM IST

حسین ساگر چار صدی قبل وجود میں آئی تھی۔ اس جھیل کا کنارہ، اس کے باغ اور تعمیرات آج بھی ماضی کی یاد دلاتی ہیں، لیکن وقت کے ساتھ فضائی آلودگی اور گندگی کی وجہ سے جھیل رفتہ رفتہ اپنی رعنائیاں کھوتی جارہی ہے۔

حسین ساگر جھیل، آلودگی اور گندگی کی آماجگاہ

حسین ساگر جھیل کی موجودہ حالت پر ای ٹی وی بھارت کی خصوصی رپورٹ دیکھیں

حسین ساگر جھیل، آلودگی اور گندگی کی آماجگاہ

حسین ساگر جھیل کی موجودہ حالت پر ای ٹی وی بھارت کی خصوصی رپورٹ دیکھیں

حسین ساگر جھیل، آلودگی اور گندگی کی آماجگاہ
Intro:حیدرآباد کے تاریخی حسین ساگر گندے پانی سے لبریز تاریخی تالاب حسین ساگر 1562ء ابراہیم قلی قطب شاہ کے دور میں میں تعمیر کیا گیا تھا- جڑواں شہر حیدرآباد اسکندرآباد کے بیچوں بیچ حسین ساگر تالاب موجود ہے جسے ابراہیم قلی قطب شاہ کے حکم پر سو 1562ء حضرت حسین شاہ ولی نے تعمیر کیا چونکہ ایک نیک مخلص قابل اور جفاکش انسان تھے اسی لیے عوام نے انہیں حسین شاہ ولی بنادیا جس وقت یہ تالاب تعمیر ہوا اس کا رقبہ 7.5 مربع کلومیٹر تھا - اور اس کی گہرائی میں 30 سے زائد تھی کرنے کا مقصد یہ تھا کہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو اور کسانوں کو اپنی فصل اگانے کے لیے باآسانی آبرسانی کا انتظام ہو سکے یہ تالاب تعمیر کے بعد کئی صدیوں تک صاف شفاف تھا ایسا ہی -ایک تالاب رائے درگ کے مقام پر تعمیر کیا گیا تھا اور اس کا نام موتی تالاب تھا- بادشاہ وقت یہیں سے پینے کے لیے پانی استعمال کیا کرتے تھے - اب یہ تالاب گنجان آبادی کے درمیان آچکا ہے - خط میں کھیتی باڑی کے استعمال میں آتا تھا-. لیکن ہندوستان کی آزادی کے بعد حکمرانوں کی لاپرواہی کے سبب اس میں صنعتوں کا فضلہ اور زہریلے پانی کے علاوہ ڈرینج کا پانی بھی چھوڑ دیا گیا یہی وجہ ہے کہ جب ہم حسین ساگر کے کنارے کھڑے ہوتے ہیں تو یہ پانی سے بدبو یہاں پانی سے بدبو واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں بیرونی سیاحوں کی تعداد میں کمی آتی جارہی ہے حسین ساگر کے کنارے پر تالاب کے احاطہ میں ہی میں ایک درگاہ سید شاہ محمد خالد مستان اولیاء کے نام سے موجود ہے - لیکن حکومتوں کی لاپرواہی کے سبب یہاں پانی کی موجوں کے سبیب سارا کچرا یہاں جمع ہو چکا ہے - اب درگاہ سے متصل علاقہ کچرے کا ڈھیر نظر آتا ہے اس میں اتنی بدبو تعفن ہے وہاں پانچ منٹ کھڑے رہنا بھی دشوار ہے لیکن عقیدت مند اور زائرین اس بدبو اور تعفن کے باوجود درگاہ پر حاضری دینے کے لئے مجبور ہے- 1992ء میں یہاں گوتم بدھ کا مجسمہ نصب کرنے کی کوشش کی گئی - یہ مجسمہ نظر آتا ہے وہاں تک پہنچنے کے لئے سیاحوں کو کشتیاں فراہم کی گئی ہیں اور بھی منظر کشی کے ساتھ ساتھ وہاں کی بدبو سے استفادہ کرنے پر مجبور ہے اسی لئے حکومت کو چاہیے کہ اس میں فیکٹریوں کے پانی کو چھوڑنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور ڈرینج کے پانی کو بھی اس میں پہنچنےسے روکے گزشتہ سال اس کے بند میں شگاف پڑ جانے سے اس کے پشتہ میں موجود بستیوں کے لیے خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی تھی بارش کے شروعات سے قبل ہیں اس کے تعمیری کاموں پر توجہ دیتے ہوئے اسے جلد از جلد مکمل کر لے جا - اس تالاب میں مجسمے کی تنصیب کے لیے ٹی ڈی پی آنجہانی چیف منسٹر ین ٹی راما راؤ نے حکم دیا تھا - اور مجسمہ بھی بنوا دیا لیکن جب اس لیے کر نصب کرنا تھا تو وہ کشتی سے گر کر تالاب کی تہہ میں ڈُوب گیا- اور اس کے نیچے کئی نوجوان ڈوب کر مر گئے اس کے بعد جس نے بھی افتتاح کی کوشش کی اس کی حکومت چلے گی آخر کئی سال کے بعد اسے کسی منسٹر کے افتتاح بغیر ہی عوام کیلئے کھول دیا گیا - شاہ راجو کے دور میں ذخیرہ آب تیار کیے جاتے تھے جس کے سبب عوام کو روزگار بھی حاصل ہوتا بلکہ ان تالابوں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا اور زرعی اجناس انتہائی ازاں ہوتا لیکن موجودہ دور خصوصی ہندوستان کی آزادی کے بعد سے جدید ذخائر اب میں تعمیر کا کام بالکل یا طور پر موت رہا تھا خصوصی دکن میں آزادی کے بعد جو ڈیم تعمیر کیے گئے اس کے بلوپرنٹ تیار ہو چکا تھا- نظام دکن کی کی حکمرانی میں ہی تیار ہو چکا تھا- ملک کی آزادی کے بعد حکومت نے اس سے کوئی جدید تعمیر نہیں کیا گیا- خود سے جدید ذخائر اب تعمیر نہیں کیا یا - اب ٹی آر ایس حکومت نے حکومت سنبھالتے سب سے پہلے آپ پاشی نظام کو درست کرنے کی کوشش کی - جو تالاب ذخائر اب مٹی کے جمع ہو جانے سے سے بند ہوجانے کے قریب تھے - انہیں دوبارہ صاف کرتے ہوئے قابل استعمال ذخائر آپ بنا دیا- اس کے باوجود سے سیکڑوں تالاب اور ذخائراب ہے جہاں مٹی کے بجانے سے بڑی بڑی آبادیوں قیام ہوچکی ہے- آبادی میں اضافہ ہوا لیکن ذخائر ا آب میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا- بائٹ میرا عنایت علی


Body:حیدرآباد کے تاریخی حسین ساگر گندے پانی سے لبریز تاریخی تالاب حسین ساگر 1562ء ابراہیم قلی قطب شاہ کے دور میں میں تعمیر کیا گیا تھا- جڑواں شہر حیدرآباد اسکندرآباد کے بیچوں بیچ حسین ساگر تالاب موجود ہے جسے ابراہیم قلی قطب شاہ کے حکم پر سو 1562ء حضرت حسین شاہ ولی نے تعمیر کیا چونکہ ایک نیک مخلص قابل اور جفاکش انسان تھے اسی لیے عوام نے انہیں حسین شاہ ولی بنادیا جس وقت یہ تالاب تعمیر ہوا اس کا رقبہ 7.5 مربع کلومیٹر تھا - اور اس کی گہرائی میں 30 سے زائد تھی کرنے کا مقصد یہ تھا کہ زرعی پیداوار میں اضافہ ہو اور کسانوں کو اپنی فصل اگانے کے لیے باآسانی آبرسانی کا انتظام ہو سکے یہ تالاب تعمیر کے بعد کئی صدیوں تک صاف شفاف تھا ایسا ہی -ایک تالاب رائے درگ کے مقام پر تعمیر کیا گیا تھا اور اس کا نام موتی تالاب تھا- بادشاہ وقت یہیں سے پینے کے لیے پانی استعمال کیا کرتے تھے - اب یہ تالاب گنجان آبادی کے درمیان آچکا ہے - خط میں کھیتی باڑی کے استعمال میں آتا تھا-. لیکن ہندوستان کی آزادی کے بعد حکمرانوں کی لاپرواہی کے سبب اس میں صنعتوں کا فضلہ اور زہریلے پانی کے علاوہ ڈرینج کا پانی بھی چھوڑ دیا گیا یہی وجہ ہے کہ جب ہم حسین ساگر کے کنارے کھڑے ہوتے ہیں تو یہ پانی سے بدبو یہاں پانی سے بدبو واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں بیرونی سیاحوں کی تعداد میں کمی آتی جارہی ہے حسین ساگر کے کنارے پر تالاب کے احاطہ میں ہی میں ایک درگاہ سید شاہ محمد خالد مستان اولیاء کے نام سے موجود ہے - لیکن حکومتوں کی لاپرواہی کے سبب یہاں پانی کی موجوں کے سبیب سارا کچرا یہاں جمع ہو چکا ہے - اب درگاہ سے متصل علاقہ کچرے کا ڈھیر نظر آتا ہے اس میں اتنی بدبو تعفن ہے وہاں پانچ منٹ کھڑے رہنا بھی دشوار ہے لیکن عقیدت مند اور زائرین اس بدبو اور تعفن کے باوجود درگاہ پر حاضری دینے کے لئے مجبور ہے- 1992ء میں یہاں گوتم بدھ کا مجسمہ نصب کرنے کی کوشش کی گئی - یہ مجسمہ نظر آتا ہے وہاں تک پہنچنے کے لئے سیاحوں کو کشتیاں فراہم کی گئی ہیں اور بھی منظر کشی کے ساتھ ساتھ وہاں کی بدبو سے استفادہ کرنے پر مجبور ہے اسی لئے حکومت کو چاہیے کہ اس میں فیکٹریوں کے پانی کو چھوڑنے کا سلسلہ بند کیا جائے اور ڈرینج کے پانی کو بھی اس میں پہنچنےسے روکے گزشتہ سال اس کے بند میں شگاف پڑ جانے سے اس کے پشتہ میں موجود بستیوں کے لیے خطرناک صورتحال پیدا ہوگئی تھی بارش کے شروعات سے قبل ہیں اس کے تعمیری کاموں پر توجہ دیتے ہوئے اسے جلد از جلد مکمل کر لے جا - اس تالاب میں مجسمے کی تنصیب کے لیے ٹی ڈی پی آنجہانی چیف منسٹر ین ٹی راما راؤ نے حکم دیا تھا - اور مجسمہ بھی بنوا دیا لیکن جب اس لیے کر نصب کرنا تھا تو وہ کشتی سے گر کر تالاب کی تہہ میں ڈُوب گیا- اور اس کے نیچے کئی نوجوان ڈوب کر مر گئے اس کے بعد جس نے بھی افتتاح کی کوشش کی اس کی حکومت چلے گی آخر کئی سال کے بعد اسے کسی منسٹر کے افتتاح بغیر ہی عوام کیلئے کھول دیا گیا - شاہ راجو کے دور میں ذخیرہ آب تیار کیے جاتے تھے جس کے سبب عوام کو روزگار بھی حاصل ہوتا بلکہ ان تالابوں کی وجہ سے زرعی پیداوار میں بھی اضافہ ہوتا اور زرعی اجناس انتہائی ازاں ہوتا لیکن موجودہ دور خصوصی ہندوستان کی آزادی کے بعد سے جدید ذخائر اب میں تعمیر کا کام بالکل یا طور پر موت رہا تھا خصوصی دکن میں آزادی کے بعد جو ڈیم تعمیر کیے گئے اس کے بلوپرنٹ تیار ہو چکا تھا- نظام دکن کی کی حکمرانی میں ہی تیار ہو چکا تھا- ملک کی آزادی کے بعد حکومت نے اس سے کوئی جدید تعمیر نہیں کیا گیا- خود سے جدید ذخائر اب تعمیر نہیں کیا یا - اب ٹی آر ایس حکومت نے حکومت سنبھالتے سب سے پہلے آپ پاشی نظام کو درست کرنے کی کوشش کی - جو تالاب ذخائر اب مٹی کے جمع ہو جانے سے سے بند ہوجانے کے قریب تھے - انہیں دوبارہ صاف کرتے ہوئے قابل استعمال ذخائر آپ بنا دیا- اس کے باوجود سے سیکڑوں تالاب اور ذخائراب ہے جہاں مٹی کے بجانے سے بڑی بڑی آبادیوں قیام ہوچکی ہے- آبادی میں اضافہ ہوا لیکن ذخائر ا آب میں خاطر خواہ اضافہ نہ ہوا- بائٹ


Conclusion:
Last Updated : Jul 1, 2019, 11:03 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.