حیدرآباد:بھارت کے جنوبی شہر میں چارمینار سے چند کلو میٹر کی دوری پر واقع حیات نگر علاقے میں فن تعمیر کی اعلی مثال مسجد حیات بخشی بیگم قائم ہے۔ مسجد حیات بخشی بیگم کی تزئین اور مرمت کے کاموں کا ریاستی حکومت نے بیڑہ اٹھایا ہے۔ ایک عرصے تک نظر انداز کئے جانے کے بعد اس مسجد کی عظمت رفتہ رفتہ پھر سے واپس لوٹنے لگی ہے۔ حیات بخشی بیگم پانچویں سلطان محمد قلی قطب شاہ کی بیٹی،چھٹے سلطان محمد قطب شاہ کی بیوی اور ساتویں سلطان عبداللہ قطب شاہ کی ماں تھیں۔Historical Masjid E Hayat Bakshi Begum At A Glance
محمد قطب شاہ کا انتقال اس وقت ہوا جب حیات بخشی بیگم کی عمر تقریبا بیس برس تھی۔ عبداللہ قطب شاہ کمسن تھے۔ اسی لئے بیٹے کے سن شعور تک پہنچنے اور حکومت سنبھالنے کے قابل ہونے تک حیات بخشی بیگم نے حکمرانی کی۔
حیات بخشی بیگم نے حیات نگر کے علاقہ کو اس لئے بھی ترقی دی تھی کہ حیات نگر کا علاقہ سورت اور مسولی پٹنم (مچھلی پٹنم) کے درمیان اصل شاہراہ پر واقع تھا۔ ادھر سے تاجروں کے قافلے گزرتے تھے۔ علاوہ اس کے حیات بخشی بیگم نے یہاں ایک عالیشان مسجد بھی تعمیر کروائی جو اپنی مثال آپ ہے۔ نہایت خوبصورت اور پر شکوہ مسجد جو بندگان حق کو اپنے رب کی بندگی میں سر بہ سجود ہونے اور مسافرین کے لئے قیام کی سہولت بھی فراہم کرتی تھی۔
حیات بخشی بیگم کے دور میں مسجد سے ملحق ایک سرائے بھی موجود ہے، جس میں افراد بالخصوص تاجرین کے ٹھہرنے کا معقول انتظام تھا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک ہاتھی جس پر عبداللہ قطب شاہ جنگی تربیت کی غرض سے بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ہاتھی بھپر گیا اور دیوانگی کے عالم میں عبداللہ قطب شاہ کو لے کر دور نکل گیا۔ کچھ دیر بعد ہاتھی پر سکون ہو کر ایک جگہ بیٹھ گیا۔ کہا جاتا ہے کہ جس جگہ ہاتھی پرسکون بیٹھا ہے اسی جگہ مسجد حیات بخشی واقع ہے۔ بیٹے کو بے تحاشہ ڈھونڈتی حیات بخشی بیگم نے جب اپنے بیٹے کو زندہ سلامت دیکھا تو اپنے بیٹے کی جان بچ جانے کی خوشی میں ارادہ کر لیا کہ اسی مقام پر ایک مسجد کی تعمیر کروائیں گی۔ اس طرح یہ مسجد ایک ماں کی جانب سے اپنے فرزند کی جاں بخشی پر ہدیہ تشکر اور نذرانہ محبت ہے۔ حیات نگر حیدرآباد کے مشرقی حصہ میں واقع ہے جہاں عبداللہ قطب شاہ کے ساتھ ہاتھی والا واقعہ پیش آیا تھا۔
آج بھی یہ مسجد اپنے مکمل آب و تاب کے ساتھ چمک رہی ہے- گزشتہ برسوں میں اس کی آن بان کسی قدر ماند پڑ گئی تھی لیکن ایک کروڑ کی لاگت سے اس مسجد کی عظمت رفتہ کو دوبارہ بحال کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سرائے کے 50 سے زائد کمروں کو پختہ کرتے ہوئے اس پر گچی کی پلاسٹر کیا گیا ہے اور مسجد کے اندرونی حصہ کی بھی تزئین کردی گئی ہے۔
یہ مسجد تقریباً 5 ایکڑ رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے۔ اس مسجد کو حیات بخشی بیگم نے عبداللہ قطب شاہ کے دور میں 1672ء میں بنوائی۔اس مسجد کو ایک اونچے چبوترہ پر بنایا گیا ہے۔ یہ مسجد زیادہ بڑی نہیں ہے لیکن اس کا صحن کافی بڑا ہے، اس کا صحن 150 میٹر لمبا اور 130 میٹر چوڑا ہے۔
مسجد کے صحن کے اطراف تقریباً 134 سے زائد کمرے بنے ہوئے ہیں جو اپنے دور میں سرائے کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس سرائے خانے میں مسافرین کے قیام کا انتظام کیا جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں؛Toli Masjidحیدر آباد کی تاریخی ٹولی مسجد زبوں حالی کا شکار
مسجد چبوترے کے نچلے حصے میں بجانب مشرق وضو خانہ بنا ہوا ہے۔ اسی مسجد کے احاطے میں شمال مشرقی جانب اپنی وسعت کے اعتبار سے مشہور "ہاتھی باؤلی" بھی موجود ہے، اسی باؤلی سے پائپ کے ذریعہ وضو خانے میں پانی کا انتظام کیا جاتا تھا۔ اصل مسجد کے مشرقی حصے میں پانچ کمانیں بنی ہوئی ہیں کی خوبصورتی لاجواب ہے پانچوں کمانیں ایک ہی وضع قطع کی ہیں درمیانی کمان میں بھی کوئی فرق نہیں ہے حالانکہ عموماً درمیانی کمان کو بڑا بنایا جاتا ہے۔ اس مسجد کے مینار بڑے خوبصورت ہیں، جو اونچائی تک پہنچ کر "رب کبریائی کا اعلان کرتے رہتے ہیں مینار کی تعمیر اچھوتی ہے۔Historical Masjid E Hayat Bakshi Begum At A Glance