جیسے جیسے موسی ندی کے اطراف میں آبادی بڑھتی گئی، عمارتیں تعمیر اور صنعتیں قائم ہونے لگیں ویسے ویسے ندی کا رقبہ سکڑتا چلا گیا۔
چنانچہ جہاں پہلے ندی کا پانی ٹھاٹھیں مارتا تھا آج وہاں گندگی کا انبار لگا ہوا ہے۔ آج یہ ندی اپنی اصل ہئیت سے بہت چھوٹی اور خراب حالت میں ہے۔
سنہ 1927 میں حیدرآباد کو طغیانی سے محفوظ رکھنے اور صاف پانی کے ذخیرے کے لیے حیدرآباد کے آخری نظام میر عثمان علی خان نے موسی ندی میں توسیع کا حکم دیا تھا۔ لیکن صنعتوں کے قیام کی وجہ سے موسی ندی کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔
موسی ندی کو خوبصورت بنانے کے لیے حکومت نے کئی طرح کے اقدامات کے اعلانات کیے ، لیکن ان اعلانات پر اب تک کوئی عملی پیشرفت نہیں ہوسکی۔
تقریباً 70 سال تک لاکھوں لوگوں کو پانی فراہم کرنے والی موسی ندی ان دنوں حکام کی لاپرواہی کا شکار ہے۔ لوگوں کو زندگی فراہم کرنے والی ندی اب خود اپنے وجود کے لیے جوجھ رہی ہے۔