حیدر آباد:ریاست تلنگانہ کے دارلحکومت حیدرآباد میں چین چوری کی وارداتیں عروج پر ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ عورتیں محفوظ نہیں ہیں تو اب یہ واضح ہے کہ مرد بھی محفوظ نہیں ہیں۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ اکیلی خواتین کے گلے سے زنجیریں چھینی جا رہی ہیں تو اب زنجیر چھیننے والے مردوں کو بھی نہیں جانے دے رہے ہیں۔ چاہے کتنی ہی سیکیورٹی ہو کتنی ہی نگرانی ہو، وہ بلا خوف و خطر اپنا کام کر رہے ہیں۔ پچھلے دنوں میں اس طرح کی زیادہ سے زیادہ چوری کے واقعات کو دیکھتے ہوئے پولیس بھی چوکس ہوگئی ہے۔ اس سے خواتین کے گلے میں زنجیریں چرانے والوں کی رفتار کچھ دھیمی ہوئی نظر آتی ہے، مگر اس بار چوروں نے اپنا راستہ بدل لیا ہے۔ اب مردوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
حال ہی میں حیدرآباد کے چیتنیا پوری میں نامعلوم حملہ آوروں نے پرساد نامی شخص کے گلے سے سونے کی چین چھین لی۔ وہ اپل میں واقع جینپیکٹ کمپنی میں سافٹ ویئر انجینئر کے طور پر کام کر رتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ صبح کے وقت اس علاقے میں آیئے تھا۔ انہوں نے ناشتہ کیا اور چیتنیا پوری کراس روڈ پر سڑک پر کھڑا تھا۔ متاثرہ نے بتایا کہ ایکٹیوا گاڑی پر آئے دو حملہ آوروں نے 40 گرام کی چین چرا لی۔ اس نے کہا کہ چور اس کی گردن سے زنجیر کاٹتے ہوئے چھین کر فرار ہوگۓ تاہم کے ساتھ کوئی حادثہ نہیں ہوا۔ متاثرہ نے فوری طور پر قریبی پولیس اسٹیشن جا کر شکایت درج کرائی۔ پولیس نے مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی ہے۔
گزشتہ اپریل کے مہینے میں، پولیس نے حیدرآباد کے ایل بی نگر علاقے میں ایک شخص پر چین کی چوری کے شبہ میں تھرڈ ڈگری کا استعمال کیا تھا۔ جس کے نتیجے میں وہ ضربیں برداشت نہ کرسکا اور دم توڑ گیا۔ یہ معاملہ ریاست بھر میں سنسنی کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ حکومت کے ساتھ ہائی کورٹ نے بھی اس معاملے کو بہت سنجیدگی سے لیا۔ معاملے کو اخبار میں کے بعد عدالت نے ہیبیس کارپس کی بنیاد پر لیا۔ ان حالات میں پولیس محکمے کو زیادہ ذمہ داری اورمستعدی کے ساتھ اپنے فرائض کو ادا کرنا ہوگا۔
مزید پڑھیں:بنگلور: چوری کا سامان برآمد، تین ملزمین گرفتار
ایک طرف چوری کی واردات کو روکنا ہے چوروں کوقانون کے مطابق سزا دینا ہے اور عوام میں خوف کا ماحول ختم کرنا اور ان کا اعتماد بحال کرنا یے۔