ETV Bharat / state

Indresh Kumar: خدا کو ماننے والے دوسرے مذاہب کا احترام کرتے ہیں - پروفیسر سید عین الحسن

ڈاکٹر اندریش کمار (Indresh Kumar) نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدرآباد میں ’بھارت کے اتحاد میں زبانوں کا کردار‘ کے زیرعنوان سمینار میں کلیدی خطبہ دیتے ہوئے کہا کہ ہر انسان جو خدا کو مانتا ہے وہ دوسرے مذاہب کا احترام کرنا بھی جانتا ہے۔ مختلف مذاہب کے لوگ اپنے خدا کو زبانوں میں پکارتے ہیں، کوئی اللہ کہتا ہے تو کوئی ایشور یا گاڈ کہتا ہے۔ اس سے سمجھ میں آتا ہے کہ زبانیں تو مختلف ہیں سب کے معنی ایک ہے۔ یہ زبانوں کی خوبصورتی ہے۔ اسی کو سمجھتے ہوئے ہمیں اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہے، تبھی ہم بھارت کو ایک بہترین ملک بناسکیں گے۔

ڈاکٹر اندریش کمار
ڈاکٹر اندریش کمار
author img

By

Published : Nov 21, 2021, 10:58 AM IST

آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اندریش کمار (Indresh Kumar) نے کہا کہ جو ہمیشہ تناﺅ میں رہے، تشدد جس کا وطیرہ ہو اور لوگوں کو جو تناﺅ میں رکھے اسے برا انسان کہیں گے جب کہ ایسا انسان جو خود خوش رہے، لوگوں کو سہولت پہنچائے اور انہیں خوش رکھے اسے ایک اچھا انسان کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد، امن اور یکجہتی کو فروغ دینا سبھی کی ذمہ داری ہے۔

ڈاکٹر اندریش کمار

پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ قدیم ایران میں تین طرح کے رسم الخط رائج تھے اور تینوں کے ماہرین تھے جو اس پر فخر کرتے تھے، لیکن بھارت میں کئی زبانیں موجود ہیں، ان کا رسم الخط بھی موجود ہے اور ان میں اعلیٰ پائے کا ادب بھی ہے۔ اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بحیثیت بھارتی، ہم کتنے قابل فخر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 11ویں صدی عیسوی سے ہی ہماری زبان کا آغاز ہوگیا تھا۔ اس وقت محمود غزنوی کی فوج میں عوام سے رابطہ کے لیے مقامی زبان کے ماہرین موجود تھے۔ رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے بیچ کی نشوونما ہوئی، جس کے بعد پودے ابھرے، جوان ہوئے جڑوں میں ہندی پہنچ گئی اور شاخوں پر اردو نمودار ہوئی۔

پروفیسر ای سریش کمار، رکن یونیورسٹی گرانٹس کمیشن و وائس چانسلر ایفلو حیدرآباد نے کہا کہ جو لوگ تین زبانیں جانتے ہیں کہ وہ مسائل کو بہتر طور پر سمجھ کر ان کا بہترین حل نکال سکتے ہیں اور جو لوگ چوتھی زبان بھی جانتے ہیں وہ مزید بہتر ہوتے ہیں۔ انہوں نے طلبہ کو زیادہ زبانیں سیکھنے کی مشورہ دیا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ جانے والے بھارتی عمومی طور پر تین زبانوں کے ماہر ہوتے ہیں، ایک ان کی مادری زبان ہوتی ہے، دوسری ہندی یا اردو اور پھر وہ انگریزی بھی جانتے ہیں، اس لیے وہ وہاں پر کامیاب ہوتے ہیں۔

پروفیسر بی جے راﺅ وائس چانسلر یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کہا کہ بھارت، دنیا کے لیے ایک تحفے کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں خیالات کی کثرت پائی جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی زبان کو محفوظ کریں گے تو اپنے خیالات کو بھی محفوظ کریں گے۔ ہم اپنی زبان میں سونچتے ہیں۔ لیکن ضرورت کے مطابق انگریزی یا کسی اور زبان میں مافی الضمیر بیان کرتے ہیں۔

پروفیسر شاہد اختر رکن نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس نے کہا کہ اردو اتحاد کی زبان ہے۔ اگر ہم زبان کو اہمیت نہیں دیں گے تو اپنی تہذیب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح اسمارٹ سٹی کے طرز پر شہروں کو ترقی دی جاتی ہے اسی طرح ہمہ لسانی شہر بھی فروغ دیئے جائیں۔ اس کے لیے انہوں نے ان کی ریاست جھارکھنڈ میں موجود شہر جمشیدپور کی مثال پیش کی جہاں ٹاٹا کمپنی کے باعث بھارت بھر کی تمام زبانیں بولنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زبانوں کے ذریعہ اتحاد قائم ہوتا ہے اور اتحاد ملک کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

پروفیسر پی فضل الرحمٰن کنوینر سمینار و ڈائرکٹر مرکز برائے فروغ انسانی وسائل نے ابتداء میں خیرمقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ قدیم ہندوستان میں جہاں سنسکرت کی اہمیت رہی وہیں عہد وسطیٰ میں اردو اور ہندی نے اپنے قدم جمائے۔ انہوں نے اردو زبان کے لسانی تنوع کا حوالہ دیتے ہوئے یونیورسٹی میں تلگو اور سنسکرت کے شعبوں کے قیام کی خواہش ظاہر کی۔ ڈاکٹر شکیل احمد، اسسٹنٹ پروفیسر اسلامک اسٹڈیز نے کارروائی چلائی اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر بونتھو کوٹیا، اسسٹنٹ پروفیسر و سمینار کے کوآرڈینیٹر نے شکریہ ادا کیا۔ جناب عاطف عمران کی قراءت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔

آر ایس ایس سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر اندریش کمار (Indresh Kumar) نے کہا کہ جو ہمیشہ تناﺅ میں رہے، تشدد جس کا وطیرہ ہو اور لوگوں کو جو تناﺅ میں رکھے اسے برا انسان کہیں گے جب کہ ایسا انسان جو خود خوش رہے، لوگوں کو سہولت پہنچائے اور انہیں خوش رکھے اسے ایک اچھا انسان کہا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اتحاد، امن اور یکجہتی کو فروغ دینا سبھی کی ذمہ داری ہے۔

ڈاکٹر اندریش کمار

پروفیسر سید عین الحسن نے کہا کہ قدیم ایران میں تین طرح کے رسم الخط رائج تھے اور تینوں کے ماہرین تھے جو اس پر فخر کرتے تھے، لیکن بھارت میں کئی زبانیں موجود ہیں، ان کا رسم الخط بھی موجود ہے اور ان میں اعلیٰ پائے کا ادب بھی ہے۔ اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ بحیثیت بھارتی، ہم کتنے قابل فخر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 11ویں صدی عیسوی سے ہی ہماری زبان کا آغاز ہوگیا تھا۔ اس وقت محمود غزنوی کی فوج میں عوام سے رابطہ کے لیے مقامی زبان کے ماہرین موجود تھے۔ رفتہ رفتہ کھڑی بولی کے بیچ کی نشوونما ہوئی، جس کے بعد پودے ابھرے، جوان ہوئے جڑوں میں ہندی پہنچ گئی اور شاخوں پر اردو نمودار ہوئی۔

پروفیسر ای سریش کمار، رکن یونیورسٹی گرانٹس کمیشن و وائس چانسلر ایفلو حیدرآباد نے کہا کہ جو لوگ تین زبانیں جانتے ہیں کہ وہ مسائل کو بہتر طور پر سمجھ کر ان کا بہترین حل نکال سکتے ہیں اور جو لوگ چوتھی زبان بھی جانتے ہیں وہ مزید بہتر ہوتے ہیں۔ انہوں نے طلبہ کو زیادہ زبانیں سیکھنے کی مشورہ دیا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ جانے والے بھارتی عمومی طور پر تین زبانوں کے ماہر ہوتے ہیں، ایک ان کی مادری زبان ہوتی ہے، دوسری ہندی یا اردو اور پھر وہ انگریزی بھی جانتے ہیں، اس لیے وہ وہاں پر کامیاب ہوتے ہیں۔

پروفیسر بی جے راﺅ وائس چانسلر یونیورسٹی آف حیدرآباد نے کہا کہ بھارت، دنیا کے لیے ایک تحفے کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہاں خیالات کی کثرت پائی جاتی ہے۔ اگر ہم اپنی زبان کو محفوظ کریں گے تو اپنے خیالات کو بھی محفوظ کریں گے۔ ہم اپنی زبان میں سونچتے ہیں۔ لیکن ضرورت کے مطابق انگریزی یا کسی اور زبان میں مافی الضمیر بیان کرتے ہیں۔

پروفیسر شاہد اختر رکن نیشنل کمیشن فار مائناریٹی ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس نے کہا کہ اردو اتحاد کی زبان ہے۔ اگر ہم زبان کو اہمیت نہیں دیں گے تو اپنی تہذیب سے بھی ہاتھ دھو بیٹھیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح اسمارٹ سٹی کے طرز پر شہروں کو ترقی دی جاتی ہے اسی طرح ہمہ لسانی شہر بھی فروغ دیئے جائیں۔ اس کے لیے انہوں نے ان کی ریاست جھارکھنڈ میں موجود شہر جمشیدپور کی مثال پیش کی جہاں ٹاٹا کمپنی کے باعث بھارت بھر کی تمام زبانیں بولنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زبانوں کے ذریعہ اتحاد قائم ہوتا ہے اور اتحاد ملک کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

پروفیسر پی فضل الرحمٰن کنوینر سمینار و ڈائرکٹر مرکز برائے فروغ انسانی وسائل نے ابتداء میں خیرمقدم کیا۔ انہوں نے کہا کہ قدیم ہندوستان میں جہاں سنسکرت کی اہمیت رہی وہیں عہد وسطیٰ میں اردو اور ہندی نے اپنے قدم جمائے۔ انہوں نے اردو زبان کے لسانی تنوع کا حوالہ دیتے ہوئے یونیورسٹی میں تلگو اور سنسکرت کے شعبوں کے قیام کی خواہش ظاہر کی۔ ڈاکٹر شکیل احمد، اسسٹنٹ پروفیسر اسلامک اسٹڈیز نے کارروائی چلائی اور مہمانوں کا تعارف پیش کیا۔ ڈاکٹر بونتھو کوٹیا، اسسٹنٹ پروفیسر و سمینار کے کوآرڈینیٹر نے شکریہ ادا کیا۔ جناب عاطف عمران کی قراءت کلام پاک سے پروگرام کا آغاز ہوا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.