وقفہ سوالات کے موقع پر ارکان کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاستی حکومت نے نومبر 2014 میں ٹی ایس۔آئی پاس متعارف کیا ہے تاکہ ریاست کی صنعتوں کیلئے سرمایہ کاری کو راغب کیا جاسکے۔
انہوں نے کہاکہ حکومت نے ترغیبات فراہم کی ہیں۔ اس میں پانچ فیصد بجلی کی سبسیڈی،سرمایہ مصارف پر دس فیصد کی چھوٹ، جی ایس ٹی پر دس فیصد کی چھوٹ شامل ہیں۔
یہ ترغیبات اسی وقت دی جاتی ہیں جب ان صنعتوں کی جانب سے مقامی افراد کو ہی 70فیصد ملازمت دی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 6 برسوں میں 15,326صنعتوں نے ٹی ایس آئی پاس کے ذریعہ منظوری حاصل کی ہے۔
ان کے منجملہ 11,954صنعتوں نے پہلے ہی کام کرنا شروع کردیا ہے۔ ٹی ایس آئی پاس کے ذریعہ تاحال 2,13,431 سرمایہ کاری راغب کی گئی۔ ان میں سے 97,405 کروڑروپئے کے سرمایہ سے صنعتوں کا پہلے ہی قیام عمل میں لایاجاچکا ہے۔
15,52,677افراد کو راست یا بالواسطہ ملازمت کے مواقع فراہم کئے گئے۔
راو نے کہا کہ اے پی تنظیم نوقانون 2014کے مطابق مرکز نے صنعتوں کے لئے خصوصی ترغیبات کی پیشکش کی تاہم تاہم اس سمت مرکز نے کچھ بھی نہیں کیا۔ اس میں مرکز کا رول صفر ہے۔
مزید پڑھیں:
نائیڈو نے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا
انہوں نے کہاکہ ٹی ایس آئی پاس سسٹم ریاست میں مزید سرمایہ کاری کوراغب کرنے کے سلسلہ میں اہم رول کا حامل رہا ہے۔ انہوں نے آندھراپردیش تنظیم نو قانون 2014کے مطابق تلنگانہ میں صنعتوں کیلئے خصوصی ترغیبات نہ دینے پر مودی زیرقیادت مرکزی حکومت پر نکتہ چینی کی۔
یواین آئی۔