ETV Bharat / state

’غیرملکی تبلیغی ارکان نے بہت زیادہ پریشانی برداشت کی‘ - جمعیۃ علمائے ہند

ایک ہم فیصلہ میں مدارس ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ 31 غیرملکیوں کے خلاف فارنر ایکٹ کے تحت قائم مقدمہ ختم کرکے انہیں جلد از جلد ان کے ملک روانہ کیا جائے کیونکہ یہ لوگ پہلے ہی بہت زیادہ پریشانی برداشت کرچکے ہیں، واپس اپنے ملک جانا ان کا حق ہے۔

Madras High Court grants bail to 31 foreign Tablighi Jamaatis
’غیرملکی تبلیغی ارکان نے بہت زیادہ پریشانی برداشت کی‘
author img

By

Published : Jun 16, 2020, 10:36 PM IST

مدراس ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت ان کی مزید قید کرونا وبا میں انہیں حاصل آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا کہ میڈیکل ایمرجنسی میں کسی کو اس طرح جیل میں نہیں رکھا جاسکتا لہٰذا انہیں جلد از جلد ان کے ممالک واپس بھیج دینا چاہئے۔ جسٹس جی آر سوامی ناتھ نے اپنے فیصلہ میں یہ بات کہی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تو اچھا ہوا کہ عرض گذاروں کو کرونا پازیٹیو نہیں ہوا لیکن کیا پتہ انہیں کل ہوجائے جس کی وجہ سے ان کی جانیں خطرے میں پڑھ سکتی ہیں لہذا جب عرض گذار سفر کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں انہیں ان کے ممالک روانہ کردینا چاہئے۔ اس کے باوجود اگر انہیں جیل میں رکھا گیا تو یہ غیرمعقول، غیر ضروری اورغیر منصفانہ ہوگا۔

تبلیغی جماعت کے ارکان کو ضمانت دیتے وقت عدالت نے کہا کہ اگر عرض گذار ویزا شرائط کی خلاف ورزی کے تعلق سے معافی نامہ بذریعہ حلف نامہ دیتے ہیں تو ان کے خلاف قائم مقدمہ ختم کرکے انہیں جلد از جلد ان کے وطن بھیج دینا چاہئے نیز جیل سے رہائی کے بعد انہیں فارنرایکٹ کے تحت کیمپوں میں رکھا جائے گا۔

اسی طرح کا فیصلہ نوح کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ عدالت نے 22/مئی کو اور سہارنپور کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ عدالت نے 10/جون کو دیا تھا اور ان دونوں عدالتوں نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے سبھی ممالک کے غیرملکی تبلیغی ارکان پر غیرملکی قوانین کے تحت عائد تمام دفعات کو بے بنیاد تسلیم کرتے ہوئے سبھی جماعتیوں کو بری کردیا تھا اور انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ جلد سے جلد سبھی جماعت والوں کو ان کے ملک بھیجنے کا انتظام کرے۔ ان لوگوں کے خلاف دونوں عدالتوں نے دفعہ 188 کے تحت حکومتی احکامات کے خلاف ورزی کا ملزم قرار دیا تھا۔

ہریانہ کی عدالت نے سبھی پر ایک ایک ہزار کا جرمانہ عائد کیا تھا، جو اسی وقت ان لوگوں نے ادا کردیا، جس کے بعد انھیں رہا کردیا گیا تھا۔ ہریانہ عدالت کی جانب سے رہا کئے گئے 57 غیر ملکی جماعتیوں میں انڈونیشیا کے 11، سری لنکا کے 24، ساؤتھ افریقہ کے 5، بنگلہ دیش کے 11 اور تھائی لینڈ کے 6 جماعتی شامل تھے اور سہارنپور کی عدالت نے بھی ان غیرملکی جماعتیوں کو دفعہ 188 کا ملزم مانتے ہوئے ان کے اوپر کوئی جرمانہ عائد نہیں کیا اور کہا کہ یہ لوگ ایک مہینہ سے زائد کی سزا پہلے ہی کاٹ چکے ہیں، اس لیے اب کسی طرح کے جرمانے یا سزا کی ضرورت نہیں ہے اور رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر ان دونوں معاملوں میں جمعیۃ کے ارکان اور وکلاء نے غیرملکی تبلیغی ارکان کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان رہا شدہ 57 غیر ملکی جماعتیوں میں انڈونیشیا کے 19، قرغستان کے 21، سوڈان کے 5، تھائی لینڈ کے 4، ملیشیا کے 2، اور اسپین،شام، فلسطین، سعودی عرب، فرانس، مالی کے ایک ایک شامل ہیں۔ لیکن مقامی پولس نے ابھی تک غیرملکیوں کو ان کے ملک روانہ نہیں کیا جبکہ وہ سفر کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں اور حلف نامہ بھی داخل کرنے کی رضا مندی دی ہے اس کے باوجود انتظامیہ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے، جس کی عدالت سے شکایت کرنا چاہئے۔

مدراس ہائی کورٹ کے فیصلہ کا تجزیہ کرتے ہوئے ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے کہا کہ مدراس ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد پولس پر دباؤ رہے گا کہ وہ تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کو ہندوستان سے بھیجے کا لائحہ عمل تیار کرے اور ان کی جانب سے ضبط کئے گئے ان کے پاسپورٹ کو بھی ان کے حوالے کرے پھر بھی اگر پولس اس تعلق سے ٹال مٹول کا مظاہرہ کرتی ہے تو یہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی جو توہین عدالت ہوگا۔

مقامی وکلاء کو مدراس ہائی کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں مجسٹریٹ عدالتوں اور سیشن عدالتوں سے رجوع ہونا چاہئے تاکہ جلدازجلد تبلیغی جماعت سے وابستہ تمام غیرملکیوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جاسکے۔

مدراس ہائیکورٹ نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ آئین ہند کے آرٹیکل 21 کے تحت ان کی مزید قید کرونا وبا میں انہیں حاصل آزادی کی خلاف ورزی ہے۔

عدالت نے اپنے فیصلہ میں مزید کہا کہ میڈیکل ایمرجنسی میں کسی کو اس طرح جیل میں نہیں رکھا جاسکتا لہٰذا انہیں جلد از جلد ان کے ممالک واپس بھیج دینا چاہئے۔ جسٹس جی آر سوامی ناتھ نے اپنے فیصلہ میں یہ بات کہی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ تو اچھا ہوا کہ عرض گذاروں کو کرونا پازیٹیو نہیں ہوا لیکن کیا پتہ انہیں کل ہوجائے جس کی وجہ سے ان کی جانیں خطرے میں پڑھ سکتی ہیں لہذا جب عرض گذار سفر کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں انہیں ان کے ممالک روانہ کردینا چاہئے۔ اس کے باوجود اگر انہیں جیل میں رکھا گیا تو یہ غیرمعقول، غیر ضروری اورغیر منصفانہ ہوگا۔

تبلیغی جماعت کے ارکان کو ضمانت دیتے وقت عدالت نے کہا کہ اگر عرض گذار ویزا شرائط کی خلاف ورزی کے تعلق سے معافی نامہ بذریعہ حلف نامہ دیتے ہیں تو ان کے خلاف قائم مقدمہ ختم کرکے انہیں جلد از جلد ان کے وطن بھیج دینا چاہئے نیز جیل سے رہائی کے بعد انہیں فارنرایکٹ کے تحت کیمپوں میں رکھا جائے گا۔

اسی طرح کا فیصلہ نوح کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ عدالت نے 22/مئی کو اور سہارنپور کی چیف جوڈیشیل مجسٹریٹ عدالت نے 10/جون کو دیا تھا اور ان دونوں عدالتوں نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے سبھی ممالک کے غیرملکی تبلیغی ارکان پر غیرملکی قوانین کے تحت عائد تمام دفعات کو بے بنیاد تسلیم کرتے ہوئے سبھی جماعتیوں کو بری کردیا تھا اور انتظامیہ کو حکم دیا تھا کہ جلد سے جلد سبھی جماعت والوں کو ان کے ملک بھیجنے کا انتظام کرے۔ ان لوگوں کے خلاف دونوں عدالتوں نے دفعہ 188 کے تحت حکومتی احکامات کے خلاف ورزی کا ملزم قرار دیا تھا۔

ہریانہ کی عدالت نے سبھی پر ایک ایک ہزار کا جرمانہ عائد کیا تھا، جو اسی وقت ان لوگوں نے ادا کردیا، جس کے بعد انھیں رہا کردیا گیا تھا۔ ہریانہ عدالت کی جانب سے رہا کئے گئے 57 غیر ملکی جماعتیوں میں انڈونیشیا کے 11، سری لنکا کے 24، ساؤتھ افریقہ کے 5، بنگلہ دیش کے 11 اور تھائی لینڈ کے 6 جماعتی شامل تھے اور سہارنپور کی عدالت نے بھی ان غیرملکی جماعتیوں کو دفعہ 188 کا ملزم مانتے ہوئے ان کے اوپر کوئی جرمانہ عائد نہیں کیا اور کہا کہ یہ لوگ ایک مہینہ سے زائد کی سزا پہلے ہی کاٹ چکے ہیں، اس لیے اب کسی طرح کے جرمانے یا سزا کی ضرورت نہیں ہے اور رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

جمعیۃ علمائے ہند کے صدر مولانا سید ارشد مدنی کی ہدایت پر ان دونوں معاملوں میں جمعیۃ کے ارکان اور وکلاء نے غیرملکی تبلیغی ارکان کی رہائی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان رہا شدہ 57 غیر ملکی جماعتیوں میں انڈونیشیا کے 19، قرغستان کے 21، سوڈان کے 5، تھائی لینڈ کے 4، ملیشیا کے 2، اور اسپین،شام، فلسطین، سعودی عرب، فرانس، مالی کے ایک ایک شامل ہیں۔ لیکن مقامی پولس نے ابھی تک غیرملکیوں کو ان کے ملک روانہ نہیں کیا جبکہ وہ سفر کے اخراجات برداشت کرنے کو تیار ہیں اور حلف نامہ بھی داخل کرنے کی رضا مندی دی ہے اس کے باوجود انتظامیہ ٹال مٹول سے کام لے رہی ہے، جس کی عدالت سے شکایت کرنا چاہئے۔

مدراس ہائی کورٹ کے فیصلہ کا تجزیہ کرتے ہوئے ایڈوکیٹ شاہد ندیم نے کہا کہ مدراس ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد پولس پر دباؤ رہے گا کہ وہ تبلیغی جماعت سے وابستہ لوگوں کو ہندوستان سے بھیجے کا لائحہ عمل تیار کرے اور ان کی جانب سے ضبط کئے گئے ان کے پاسپورٹ کو بھی ان کے حوالے کرے پھر بھی اگر پولس اس تعلق سے ٹال مٹول کا مظاہرہ کرتی ہے تو یہ عدالت کے حکم کی خلاف ورزی ہوگی جو توہین عدالت ہوگا۔

مقامی وکلاء کو مدراس ہائی کورٹ کے فیصلہ کی روشنی میں مجسٹریٹ عدالتوں اور سیشن عدالتوں سے رجوع ہونا چاہئے تاکہ جلدازجلد تبلیغی جماعت سے وابستہ تمام غیرملکیوں کو ان کے وطن واپس بھیجا جاسکے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.