سرینگر (جموں و کشمیر): ہر سال آٹھ مئی کو دنیا بھر میں تھیلیسیمیا (world thalassemia day) سے متعلق آگہی اور اس بارے میں شعور بیداری کے لیے تھیلیسیمیا کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ تھیلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے جو والدین سے اولاد میں منتقل ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے انسانی خون میں شامل سرخ خلیوں کی مقدار میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ اس کمی کو دور کرنے کے لیے کسی بھی مریض کو وقفے وقفے سے خون کی تبدیلی کے عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔
گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر کے ہیموٹولوجی ماہرین کے مطابق وادی کشمیر میں خون (ہیمو گلوبین) کی کمی کی موروثی بیماری تھیلیسیمیا کے مریضوں کی صحیح تعداد کا پتہ لگانے کے لیے امسال پہلی مرتبہ سکریننگ کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ کشمیر میں صرف 26 تھیلیسیمیا مریضوں کا اندارج ہوا ہے۔ البتہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔
تھیلیسیمیا بھی ہیموفیلیا کی طرح خون کا مرض ہے اور اس سے متاثرہ افراد کے خون کی خلیوں میں ہیموگلوبین کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہیمو ٹولجسٹ کہتے ہیں کہ خون کی خلیوں کی کمی سے مریض خون کی کمی کا شکار ہو جاتے ہیں جبکہ ایسے مریضوں کا خون کی منتقلی کے بغیر کوئی بھی علاج نہیں ہوتا ہے۔ جی ایم سی سرینگر کے شعبہ ہیموٹولوجی کے مطابق وادی کشمیر میں اب تک 26 مریضوں کا اندراج ہوا ہے لیکن تعداد اس سے کافی زیادہ ہے۔ ایسے میں امسال سے سکریننگ کا آغاز کیا جا رہا ہے اور سکریننگ کے لیے 1.6 کروڑ روپے کی لاگت سے مشینیں خریدی گئی ہیں تاہم ریجنٹ نامی تشخیصی ٹیسٹ کی دوائی کی دستیابی کے بعد ہی تھیلیسیمیا مریضوں کی صحیح تعداد کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: بلڈ بینکوں میں خون کی قلت
جی ایم سی سرینگر میں شعبہ ہیموٹولوجی کے ماہر ڈاکٹر کہتے ہیں کہ اب تک زیادہ مریض شمالی کشمیر کے اوڑی علاقے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ بیماری زیادہ ان لوگوں کے بچوں میں دیکھنے میں آتی ہے جنہوں نے غیر ریاستی لڑکیوں یا لڑکوں سے شادی کی ہوتی ہے۔ ایسے میں جینیات کی منتقلی سے یہ بیماری پیدا ہو رہی ہے۔ مذکورہ مریضوں میں خون کی خلیوں کی کمی سے جسم میں آئرن کی کمی بڑھ جاتی ہے اور اس کا علاج لازمی بن جاتا ہے۔