وادی کشمیر کی دستکاری دنیا بھر میں مشہور ہے- اس دستکاری میں اخروٹ کی لکڑی سے تراشی گئی مصنوعات یہاں کے ہنر اور فن کا ایک اہم حصہ ہیں- اگرچہ اس ہنر اور دستکاری کا جدیدیئت اور تیز رفتار زندگی کے باعث ختم ہونے کا خدشہ ہے، تاہم سرینگر کے صفہ کدل کے غلام نبی ڈار اس ہنر کو زندہ رکھنے والے چند دستکاروں میں سے ایک ہیں۔
68 سالہ غلام نبی ڈار نے 10 برس کی عمر میں تعلیم کو خیرآباد کر کے اس ہنر کو سیکھنا شروع کیا اور 25 برس کی دن رات محنت و لگن کے بعد انہوں نے یہ ہنر سیکھ لیا-
ملک کا کہنا ہے کہ وہ لکڑ تراشی میں مہارت حاصل کرنا چاہتے تھے تاکہ انکی دستکاری نمایاں ہو، جو کشمیر کے فن و روایت کی عکاسی کرے- اپنے ہاتھوں سے ہنر مندی دکھا کر غلام نبی ڈار اخروٹ کی لکڑی کو مایہ ناز اور دلفریب نمونے میں تبدیل کرتے ہیں جو گھروں، تاہم دفاتر کی زینت بن جاتے ہے-
ضلع سرینگر خاص دستکاری اور ہنر مندی کے لیے جانا جاتا ہے اور اس پہچان و ہنر مندی کو زندہ رکھنے میں غلام نبی ڈار جیسے نقش تراشوں کا اہم رول ہے- اب نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ اس ہنر کو سیکھیں اور اسے آگے بڑھائیں۔
یہ بھی پڑھیے
محبوبہ مفتی نظر بند کشمیریوں کی 'حالت زار' پر رنجیدہ
غلام نبی ڈار جیسے کئی دستکار، نوجوانوں کو اس ہنر کو سکھانے کی دعوت دے رہے ہیں۔ لیکن مایوسی کی بات یہ ہے کہ نوجوان اس ہنر کو سیکھنے میں خاصی دلچسپی نہیں دکھا رہے ہیں۔
غلام بنی کا کہنا یے کہ اگر کشمیر کے ورثے کو زندہ رکھنا ہے تو پھر نوجوانوں کو یہ ہنر سیکھنا لازمی ہے۔ تاہم وہ کہتے ہیں کہ حکومت کو اس ہنر کو فروغ و زندہ رکھنے کے لیے اسکول کھولنے ہوں گے۔ جہاں نوجوان یہ فن سیکھ سکیں۔