جموں و کشمیر میں موسم سرما کے شروع ہوتے ہی فیرن پہنے لوگ ہر گلی کوچوں میں نظر آنے لگتے ہیں بلکہ کشمیر سے باہر دیگر ریاستوں میں بھی یہاں کے رہنے والے اپنے اس پہناوے سے بخوبی پہچانے جاتے ہیں۔
قدیم طرز کے فیرن میں اب جدید ڈایزائنز متعارف کرائے جانے سے بازار میں 'فیرن' کی مانگ مزید بڑھ گئی ہے۔فیرن کی طرف نوجوانوں کے بڑھتے رجحانات کو دیکھتے ہوئے عمر بن احمد نے اپنی اہلیہ کی مدد سے بٹہ مالوں میں قائم اپنے ایک شوروم میں فیرن کے کئی جدید اور الگ الگ ڈیزان متعارف کرائے ہیں جو کہ مرد اور خواتین کو کافی پسند آرہے ہیں۔
اپنے ڈیزائن کردہ نئے طرز کے فیرن کو لوگوں تک پہنچانے کے لئے عمر نے بٹہ مالو میں اپنے شوروم کے ساتھ ایک بڑا کارخانہ بھی قائم کیا ہے جس میں کاریگر دن بھر نت نئے طرز کے فیرن بنانے میں مشغول ہیں۔
'ماڈسٹ آٹریز' نامی اس شوروم کے مالک عمر بن احمد کا کہنا ہے کہ' فیرن کے نئے ڈیزائنز وجود میں لائے جانے سے نہ صرف یہاں کے مقامی نوجوان میں فیرن پہننے کا رجحان بڑھ رہا ہے بلکہ غیر مقامی سیاح بھی اب ان کو پہننا پسند کرتے ہیں۔
ماڈسٹ آرٹریز کے اس کارخانے میں اس وقت 18 سے زائد کاریگر کام کررہے ہیں جو کہ دن بھر میں 60 سے 70 فیرن تیار کرتے ہیں۔ فیرن بنانے والوں کہنا ہے کہ' موسم سرما میں نئے طرز کے فیرن بنانے کی ڈیمانڈ بڑھ جاتی ہے کیونکہ اب لوگ گھر کے ساتھ ساتھ آفس میں بھی فیرن پہننا پسند کرتے ہیں۔
عمر بن احمد اور ان کی اہلیہ نے کشمیری لباس فیرن کو نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شناخت دینے کی ٹھان لی ہے۔ جس کے لئے یہ اپنی ویب سائٹ اور دیگر آن لائن پلیٹ فارمز کے ذریعے بھی اپنے بنائے گئے فیرن فروخت کرتے ہیں۔
جدید طرز پر بنائے گئے اس لباس کی مانگ بڑھنے کے ساتھ ساتھ اب بیرون ممالک سے بھی فیرن کے آرڈرز آتے رہتے ہیں۔جس کو یہ روزانہ کورئیر کے ذریعے اپنے صارف تک پہنچاتے ہیں۔
مزید پڑھیں: ترال: برفباری کے دوران لوگوں کا انسانیت دوست چہرہ
ماڈسٹ آٹریز شوروم فیرن جو کہ کشمیر کی روایت اور ثقافت کا ایک اہم لباس مانا جاتا ہے۔عصر حاضر کے جدید فیشن اور اعلی قسم کے ملبوسات کے باوجود بھی کشمیری فیرن صدیوں پرانی طلب اور اپنی اہمیت و افادیت کو بر قرار رکھے ہوا ہے۔