گلوان وادی کشمیر میں موضوع بحث اسلئے ہے کیوں کہ اس وادی کا نام کشمیر کے باشندے غلام رسول شاہ (گلوان) کے نام سے منصوب ہے۔
مصنف اور مؤرخ عبدالغنی شیخ نے اس موضوع پر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غلام رسول شاہ کا خاندان کشمیر میں رہائش پزیر تھا اور وہ اُس وقت کے حکمرانوں کے گھوڑوں کی رکھوالی کرتے تھے جس سے انکا نام گلوان مشہور ہو گیا۔
84 برس کے عبدالغنی شیخ لیہہ سے تعلق رکھتے ہیں اور لداخ کی تاریخ پر انہوں نے پانچ کتابیں تصنیف کی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ غلام رسول گلوان اس وقت کے انگریز حکمران اور وسطی ایشیا سے آنے والے محققین اور مورخین کے ہمراہ گلوان وادی جاتے تھے۔
غلام رسول گلوان نے اپنی تصنیف ـ ـ’سرونٹ آف صاحبس‘ میں اس وادی اور اپنے سفر کے متعلق کافی معلومات قلمبند کی ہیں۔
بھارت اور چین کے مابین تازہ کشیدگی رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں شروع ہوئی جب پانچ مئی کو چینی فوجی اہلکار گلوان وادی میں بھارتی حدود میں داخل ہوئے اور بعد ازاں ایک ہفتہ کے بعد 12 مئی کو پیونگ یانگ جھیل سیکٹر میں بھی قابض ہو گئے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق پیونگ یانگ جھیل علاقے میں پانچ مئی کو ہندوستان اور چینی فوجی اہلکاروں کے درمیان لاٹھیوں اور سلاخوں سے جھڑپیں بھی ہوئیں اور سنگ باری بھی جس میں طرفین کے فوجی اہلکار زخمی ہوئے۔ اس کشیدگی کے بیچ دونوں مملک کے درمیان مذاکراتی عمل منجمد ہے۔ وہیں امریکہ کے صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اس معاملے میں ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
اطلاعات کے مطابق چین نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران گلوان وادی میں خصوصی طور پر اپنی موجودگی کو مستحکم کرتے ہوئے ایک سو خیمے نصب کئے ہیں اور بنکروں کی تعمیر کے لئے ضروری ساز و سامان بھی لایا جا رہا ہے۔ جبکہ بھارتی فوجی اہلکار بھی حساس علاقوں بشمول ڈمچوک اور دولت بیگ اولڈی میں جارحانہ انداز میں گشت کر رہے ہیں۔
ہندوستان کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں کا ماننا ہے کہ گلوان وادی کے کئی اہم علاقوں میں چینی فوج کی موجودگی باعث فکر مندی ہے۔ فوج کی شمالی کمان کے سابق لیفٹیننٹ جنرل (آر) ڈی ایس ہُڈا کے مطابق یہ انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ یہ کوئی معمول کی در اندازی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ گلوان وادی کے علاقوں، جو متنازعہ نہیں ہیں، میں چینی فوج کی دراندازی سب سے زیادہ تشویش ناک امر ہے۔
آرمی چیف جنرل ایم ایم نروانے نے 22 مئی کو لیہہ میں فوج کی 14 ویں کور کے ہیڈکوارٹر کا خاموشی سے دورہ کیا اور وہاں اعلیٰ کمانڈروں سے بریفنگ حاصل کرکے ہندوستان اور چین کے درمیان حقیقی کنٹرول لائن کے اطراف کے علاقوں کی سکیورٹی صورت حال کا جائزہ لیا۔