وادی کشمیر میں 90 کی دہائی میں شروع ہوئی عسکری سرگرمیوں کے ساتھ ہی یہاں مقیم کئی ہندو کنبوں نے جموں سمیت بھارت کی دیگر ریاستوں کی جانب ہجرت کی اور وہیں اپنا بسیرا بنا لیا۔ تاہم کئی ایسے بھی تھے جنہوں نے نامساعد حالات کے باوجود بھی نقل مکانی کو ترجیح نہیں دی۔ آج تقریبا تیس برس بعد یہ کشمیری ہندو انتظامیہ اور مرکزی سرکار سے اپنے حقوق کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں۔
کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی کے اعداد و شمار کے مطابق نوے کی دہائی میں 76,000 ہندو کمبو نے وادی سے ہجرت کی۔ جس کے بعد وادی میں اب صرف 808 ہندو کنبے 242 مختلف جگہوں پر رہائش پذیر ہیں۔ ان کنبوں کا ماننا ہے کہ مرکزی و ریاستی سرکار ان کی مشکلات کو حل نہیں کر پائی ہیں اور انہیں لگاتار نظر انداز کیا جاتا رہا۔
کشمیری پنڈت سنگھرش سمیتی کے صدر سنجے تکو کا کہنا ہے کہ ’’وادی میں نامساعد حالات کے باوجود جو ہندو کنبے یہیں رہے وہ ہمیشہ نظر انداز ہو رہے ہیں۔ جب کہ جن لوگوں نے ہجرت کی تھی ان کے بارے میں ہر کوئی لگاتار بات کرتا رہتا ہے۔ ہم نے جو کچھ بھی کیا وہ سب خود کیا۔ انتظامیہ یا سرکار نے ہماری مشکلات کے ازالہ کے لیے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔‘‘
سنجے تکو نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے ای ٹی وی بھارت کو بتایا ’’سن 1997 تک کوئی یہ ماننے کو تیار بھی نہیں تھا کی کشمیر میں کچھ ہندو گھر ابھی بھی آباد ہیں۔ اس سے پہلے ہم نے تمام سیاسی جماعتوں کے دروازے کھٹکھٹائے تھے اور اپنی وجود کے حوالے سے انہیں آگاہ کیا تھا۔ تاہم ہم نظر انداز ہوتے رہے۔‘‘
تاحیات بھوک ہڑتال پر بیٹھنے کی وجوہات پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ہمارے سامنے جو سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ ہے روزگار کا۔ ہمارے نوجوانوں نے بڑی مشکلات سے اپنی تعلیم حاصل کی تاہم روزگار کے مواقع فراہم نہیں کیے جا رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں اور جموں و کشمیر کی سرکاروں سے مایوسی حاصل ہونے کے بعد ہم نے اس وقت کے گورنر ستیہ پال ملک سے رجوع کیا تاہم وہ ہم سے ملے بھی نہیں۔ پھر لیفٹینٹ گورنر جی سی مرمو کے سامنے اپنا مطالبہ رکھنے کی کوشش کی تاہم انہوں نے بھی ہمیں نظر انداز کیا۔ گزشتہ مہینے کی 27 تاریخ کو منوج سنہا سے ملاقات ہوئی، انہوں نے ہمارے مشکلات کو حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تاہم پھر وعدے کھوکھلے ہی لگ رہے ہیں۔ آج ہماری ہڑتال کا چوتھا دن ہے اور ابھی تک کوئی بھی سرکاری افسر ہم سے ملاقات کرنے نہیں آیا۔ ہماری ہڑتال تب تک جاری رہے گی جب تک ہمارے تمام مطالبات حل نہیں کئے جاتے۔‘‘
وادی کے موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد عوام اور سرکار کے درمیان ایک خلا پیدا ہوا ہے جس وجہ سے کسی کو بھی کوئی فائدہ نہیں ہو رہا اور ہم بیچ میں پستے جا رہے ہیں۔‘‘
وہیں 26 برس کی وسندھرا تولو کا کہنا ہے کہ ’’ہم اتوار سے سرینگر کے گنپت یار میں واقع 300 سال پرانے مندر میں احتجاج کر رہے ہیں۔ ہماری کچھ زیادہ مانگیں نہیں ہیں بس اتنا کہ جو مرکزی سرکار کی جانب سے ہمیں 500 نوکریوں کا وعدہ کیا گیا تھا وہ پورا کیا جائے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے بھی ہدایت جاری کی گئی تھی تاہم متعلقہ محکمے کے افسران ہمارے جذبات کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔‘‘
تولو کا مزید کہنا تھا کہ ’’وادی میں موجود کشمیری ہندوؤں کی بازآبادکاری کے حوالے سے سنجیدہ اقدامات اٹھائے جائیں اور دیہات میں رہنے والے ہندو کنبوں کے لیے رہائش کی سہولیات اور امداد فراہم کی جائے۔‘‘