ETV Bharat / state

نئی عسکری تنظیم سے سکیورٹی فورسز کی مشکلات کا اضافہ؟

دفعہ 370 اور 35 اے کی منسوخی کے بعد منظر عام پر آئی ایک نئی عسکریت پسند تنظیم دی ریزسٹنس فرنٹ ( ٹی آر ایف) نے حالیہ دنوں جموں کشمیر میں تعینات حفاظتی عملے کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ جہاں جموں و کشمیر پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ عسکری تنظیم لشکر طیبہ سے منسلک ہے وہیں ٹی آر ایف نے سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر کے ذریعے ان باتوں کو غلط قرار دیا ہے۔

security forces
کیا ٹی آر ایف نے حفاظتی اہلکاروں کی مشکلیں بڑھا دیں ہے؟
author img

By

Published : Apr 18, 2020, 4:16 PM IST

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ ’’گزشتہ مہینے تک ٹی آر ایف کا وادی میں کوئی وجود نہیں تھا تاہم اب مرکزی زیر انتظام علاقے کی حفاظت اور وادی میں تشدد کو بڑھانے کی حکمت عملی کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’رواں مہینے کی چھ تاریخ کو شمالی کشمیر کہ کپوارہ ضلع میں پاکستان سے آئے پانچ ٹی آر ایف سے منسلک عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا تھا جن میں سے تین مقامی باشندگان تھے۔‘‘

کپوارہ کے کیرن سیکٹر میں چھ دن تک جاری جھڑپ کے دوران پانچ عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج کے پانچ جوان بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ٹی آر ایف کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے جموں وکشمیر انتظامیہ بھی خطے میں تیز رفتار انٹرنیٹ خدمات بحال نہ کرنے پر مجبور ہوگئی۔ انتظامیہ نے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات کے تعلق سے جاری کیے گئے بیان میں ٹی آر ایف کا تذکرہ نہ کرتے ہوئے ہوئے کہا تھا کہ ’’حالیہ دنوں میں عام شہریوں کی ہلاکتیں، حفاظتی عملے پر حملے، بھاری تعداد میں اسلحہ بر آمد کیا جانا اور اور سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر عسکری ویڈیوز اور فوٹوز اپلوڈ کرنے کی وجہ سے انتظامیہ وادی میں 4جی خدمات بحال نہیں کر سکتی۔‘‘

بیان میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کی ایک نئی عسکریت پسند تنظیم کا منظر عام پر آنا بھی ایک وجہ ہے کہ تیز رفتار انٹرنیٹ بحال نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں ایک طرف انتظامیہ یہ امید کر رہی ہے کہ 2 جی انٹرنیٹ کی وجہ سے وادی میں تصادم آرائیوں میں کمی آئے گی اور ٹی آر ایف اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو پائے گی وہیں پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں ’’باوثوق ذرائع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ٹی آر ایف کا سربراہ جس کا نام ابو انس بتایا جا رہا ہے وہ جنوبی کشمیر کا رہنے والا ہے۔‘‘

پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’’ہم ہنس کے بارے میں تمام تفصیلات جمع کر رہے ہیں اور اس نئی عسکریت پسند تنظیم میں کل کتنے نوجوان شامل ہو چکے ہیں اس بارے میں بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘

جب ای ٹی وی بھارت نے اس تعلق سے جموں و کشمیر کے ڈی جی پی دلباغ سنگھ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ٹی آر ایف لشکر طیبہ سے منسلک ہے اور پاکستان میں بیٹھے ان کے آقاؤں کے حکم پر وادی کے عوام کو عسکری صفوں میں شامل ہونے کے لئے اکسا رہی ہے۔ ان کا مقصد وادی کی عوام میں خوف پیدا کرنا ہے۔‘‘

سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹی آر ایف کی جانب سے شائع کئے گئے بیان کے مطابق وہ ’’لشکر طیبہ سے منسلک نہیں ہے۔ یہ تمام خبریں بے بنیاد ہیں۔ ہمیں حزب المجاہدین سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم سب عسکری جماعتوں کی عزت کرتے ہیں۔ ہم سب کا مقصد ایک ہی ہے تاہم کام کرنے کا طریقہ الگ الگ۔‘‘

ٹی آر ایف کے علاوہ جموں و کشمیر پولیس ایک اور نئی تنظیم کی بھی جانچ پڑتال کر رہی ہے۔ پولیس کے مطابق ٹی آر ایف کے علاوہ تحریک ملت اسلامی ( ٹی ایم ای) کے بارے میں بھی انہیں اطلاع موصول ہوئی تھی تاہم ابھی تک کچھ پختہ مواد سامنے نہیں آیا ہے۔

واضح رہے کہ وادی کشمیر میں اس وقت حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کے علاوہ البدر، العمر، انصار غزوۃ الہند، اسلامک اسٹیٹ اور ٹی آر ایف عسکری تنظیمیں سرگرم ہیں۔

جموں کشمیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اب تک 40 سے زائد عسکریت پسند تقریبا بارہ مختلف تصادم آرائیوں میں ہلاک کیے گئے ہیں۔

ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر پولیس کے ایک سینیئر افسر نے بتایا کہ ’’گزشتہ مہینے تک ٹی آر ایف کا وادی میں کوئی وجود نہیں تھا تاہم اب مرکزی زیر انتظام علاقے کی حفاظت اور وادی میں تشدد کو بڑھانے کی حکمت عملی کا باعث بن سکتا ہے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’رواں مہینے کی چھ تاریخ کو شمالی کشمیر کہ کپوارہ ضلع میں پاکستان سے آئے پانچ ٹی آر ایف سے منسلک عسکریت پسندوں کو ہلاک کیا گیا تھا جن میں سے تین مقامی باشندگان تھے۔‘‘

کپوارہ کے کیرن سیکٹر میں چھ دن تک جاری جھڑپ کے دوران پانچ عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ بھارتی فوج کے پانچ جوان بھی ہلاک ہوئے تھے۔ ٹی آر ایف کے منظر عام پر آنے کی وجہ سے جموں وکشمیر انتظامیہ بھی خطے میں تیز رفتار انٹرنیٹ خدمات بحال نہ کرنے پر مجبور ہوگئی۔ انتظامیہ نے جموں و کشمیر میں انٹرنیٹ خدمات کے تعلق سے جاری کیے گئے بیان میں ٹی آر ایف کا تذکرہ نہ کرتے ہوئے ہوئے کہا تھا کہ ’’حالیہ دنوں میں عام شہریوں کی ہلاکتیں، حفاظتی عملے پر حملے، بھاری تعداد میں اسلحہ بر آمد کیا جانا اور اور سماجی رابطہ کی ویب سائٹوں پر عسکری ویڈیوز اور فوٹوز اپلوڈ کرنے کی وجہ سے انتظامیہ وادی میں 4جی خدمات بحال نہیں کر سکتی۔‘‘

بیان میں واضح طور پر لکھا گیا ہے کی ایک نئی عسکریت پسند تنظیم کا منظر عام پر آنا بھی ایک وجہ ہے کہ تیز رفتار انٹرنیٹ بحال نہیں کیا جا سکتا۔ جہاں ایک طرف انتظامیہ یہ امید کر رہی ہے کہ 2 جی انٹرنیٹ کی وجہ سے وادی میں تصادم آرائیوں میں کمی آئے گی اور ٹی آر ایف اپنے منصوبوں میں کامیاب نہیں ہو پائے گی وہیں پولیس کا کہنا ہے کہ انہیں ’’باوثوق ذرائع سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ٹی آر ایف کا سربراہ جس کا نام ابو انس بتایا جا رہا ہے وہ جنوبی کشمیر کا رہنے والا ہے۔‘‘

پولیس افسر کا کہنا ہے کہ ’’ہم ہنس کے بارے میں تمام تفصیلات جمع کر رہے ہیں اور اس نئی عسکریت پسند تنظیم میں کل کتنے نوجوان شامل ہو چکے ہیں اس بارے میں بھی کارروائی کی جا رہی ہے۔‘‘

جب ای ٹی وی بھارت نے اس تعلق سے جموں و کشمیر کے ڈی جی پی دلباغ سنگھ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’’ٹی آر ایف لشکر طیبہ سے منسلک ہے اور پاکستان میں بیٹھے ان کے آقاؤں کے حکم پر وادی کے عوام کو عسکری صفوں میں شامل ہونے کے لئے اکسا رہی ہے۔ ان کا مقصد وادی کی عوام میں خوف پیدا کرنا ہے۔‘‘

سماجی رابطہ کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ٹی آر ایف کی جانب سے شائع کئے گئے بیان کے مطابق وہ ’’لشکر طیبہ سے منسلک نہیں ہے۔ یہ تمام خبریں بے بنیاد ہیں۔ ہمیں حزب المجاہدین سے بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم سب عسکری جماعتوں کی عزت کرتے ہیں۔ ہم سب کا مقصد ایک ہی ہے تاہم کام کرنے کا طریقہ الگ الگ۔‘‘

ٹی آر ایف کے علاوہ جموں و کشمیر پولیس ایک اور نئی تنظیم کی بھی جانچ پڑتال کر رہی ہے۔ پولیس کے مطابق ٹی آر ایف کے علاوہ تحریک ملت اسلامی ( ٹی ایم ای) کے بارے میں بھی انہیں اطلاع موصول ہوئی تھی تاہم ابھی تک کچھ پختہ مواد سامنے نہیں آیا ہے۔

واضح رہے کہ وادی کشمیر میں اس وقت حزب المجاہدین اور لشکر طیبہ کے علاوہ البدر، العمر، انصار غزوۃ الہند، اسلامک اسٹیٹ اور ٹی آر ایف عسکری تنظیمیں سرگرم ہیں۔

جموں کشمیر پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس اب تک 40 سے زائد عسکریت پسند تقریبا بارہ مختلف تصادم آرائیوں میں ہلاک کیے گئے ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.