سرینگر: آرٹیکل 370 کی منسوخی اور سپریم کورٹ میں جاری کارروائی پر تبصرہ کرتے ہوئے پی ڈی پی کے جنرل سیکریٹری (آرگنائزیشن) ڈاکٹر محبوب بیگ نے کہا کہ 5 اگست 2019 کو جو کچھ ہوا وہ نہ صرف غیر آئینی تھا بلکہ طریقہ کار بھی غلط تھا،ایسا کرنے کیلئے اپنایا گیا راستہ غیر قانونی تھا۔
محبوب بیگ نے مزید کہا کہ اگر سپریم کورٹ نے آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے فوراً بعد اس معاملے کا ازخود نوٹس لیا ہوتا اور حکومت ہند سے کہا ہوتا کہ وہ کسی نتیجہ خیز کارروائی کو آگے نہ بڑھائے تو شاید لوگوں نے ایک سکون کا سانس لیا ہوتا۔
ڈاکٹر بیگ نے مزید کہا کہ آرٹیکل 370 اس لئے عارضی نہیں تھا کہ اسے منسوخ کیا جانا تھا بلکہ اس لئے کہ اسے ابھی تک جموں و کشمیر کی آئین ساز اسمبلی نے منظور نہیں کیا تھا، جس کے بعد اسے مستقل خصوصیت حاصل ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ کسی کو کبھی بھی امید نہیں ہارنی چاہئے لیکن کسی کی بہت زیادہ توقعات کے ساتھ جڑے نہیں رہنا چاہئے ، کیونکہ کافی وقت گزر چکا ہے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سے سابقہ ریاست میں بہت سارے فیصلے نافذ کئے گئے ہیں۔بیگ نے مزید کہا کہ کسی کے آئینی حقوق کے لئے لڑنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آئینی طریقے سے مزاحمت کی جائے۔
ڈاکٹر بیگ نے یہ بھی کہا کہ بی جے پی نے 5 اگست 2019 کو سیاسی طور پر کام کیا نہ کہ آئین کے مطابق اور اس لئے کسانوں کی طرح سیاسی طور پر لڑنا ہوگا کیونکہ کسانوں نے حکومت کو اسی پارلیمنٹ کے بنائے گئے قوانین کو واپس لینے پر مجبور کیا، حالانکہ وہ پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں تھا اور آرٹیکل 370 کو ختم کرنا ایسا معاملہ نہیں تھا۔
مزید پڑھیں: Article 370 Hearing in SC دفعہ 370 کیس پر سپریم کورٹ میں سماعت لائیو
پی اے جی ڈی کے اندر اتحاد پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر محبوب بیگ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ پی ڈی پی اتحاد اور دفعہ 370 اور 35 اے کی بحالی کے لئے متحد لڑائی میں یقین رکھتی ہے۔
ڈاکٹر بیگ نے مزید کہا، ”ہم لوگوں کے جذبات کا احترام کرتے ہیں اور ہماری صدرمحترمہ محبوبہ مفتی ایک بڑے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے قیادت کر رہی ہیں جس کےلئے ہم سب کو پارٹی وابستگیوں سے اوپر اٹھنا چاہیے۔
بتادیں کہ سپریم کورٹ میں جموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی عرضیوں پر یومیہ بنیاد پر سماعت جاری ہے۔ چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ اس معاملے کی سماعت کر رہی ہے۔ بنچ میں جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گاوائی اور جسٹس سوریا کانت بھی شامل ہیں۔
(یو این آئی کے ساتھ)