اگرچہ بعد میں سرکاری ترجمان روہت کنسل کا اس آرڈر کے حوالے سے ایک ٹویٹ بھی سامنے آیا، لیکن جموں و کشمیر خاص طور سے وادی کشمیر کے مختلف طبقہ ہائے فکر کے لوگوں نے اس کے خلاف سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔
متحد مجلس علما جموں و کشمیر نے کہا ہے کہ انتظامیہ کے ذریعہ وادی کے طول وعرض میں شراب کی دکانیں کھولنے کے کسی بھی اقدام کی اجازت نہیں دی جائے گئی۔
انہوں نے کہا کہ لوگ جہاں ایک جانب کورونا وائرس سے نبرد آزما ہے۔ وہیں دوسری جانب حکومت اس مسلم اکثریتی علاقے کی آبادی کے تناسب میں بگاڑ پیدا کرنے کی ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس طرح کی کوشش کر رہی ہے۔
متحد مجلس علما جموں و کشمیر نے کہا کہ وادی کشمیر صوفی، سنتوں، ریشیوں اور منیوں کی سرزمین رہی ہے۔ اس لیے مجلس علماء جموں و کشمیر اس طرح کے کسی بھی فیصلے کو عمل میں لانے کی اجازت نہیں دے گی۔
وہیں یہاں کی سیاسی اور سماجی تنظیموں نے بھی اس حوالے سے سرکار کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر مظفر شاہ نے اپنی سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں کی نوجوان نسل پہلے ہی منشیات کی لت میں مبتلا ہو چکی ہے۔ اب شراب کی دکانیں کھولنے کے اس اقدام سے نوجوانوں کی مزید تباہی اور بربادی کرنے کی مذموم سازش رچی جارہی ہے جو کسی بھی صورت کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔
سول سوسائٹی فورم کے چیئرمین عبدالقیوم وانی نے کہا کہ 'فورم اس سلسلے میں مشاورت شروع کرکے اس کے خلاف ایک مہم چلائے گا۔'
ادھر تجار لیڈران ،ٹرانسپورٹر ایسوسی ایشن کے زعماؤں ،سماجی کارکنان اور عام لوگوں نے بھی وادی کشمیر میں شراب کی نئی دکانیں کھولنے کے تعلق سے سرکار ی فیصلہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی سخت برہمی اظہار کیا ہے۔
انہوں نے سوالیہ انداز میں بی جے پی والی مرکزی حکومت سے پوچھا کہ آیا جموں وکشمیر کی خصوصی حثیت کے خاتمے کے بعد وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے جموں وکشمیر کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور یہاں کے بے روزگار نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کے لئے طوفے میں شراب کی دکانیں دی جارہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیرکو دو وفاقی علاقوں میں تبدیل کئے جانے کے بعد لوگوں کی منشا اور توقعات کے خلاف آئے روز نئے نئے فرمان جاری کئے جاتے ہیں۔ نہ وہ کہیں وکاس ہی نظر آرہا ہے اور نہ ہی روزگار ۔انہوں نے کہا گزشتہ 5اگست سے جہاں نوجوان بے کاری اور بے روزگاری کی مار جھیل رہے وہیں کروناوائرس سےپیدا شدہ صورتحال نےیہاں کے لوگوں کی کمر توڑی ہے ۔وہیں اب سرکار نئی شراب کی دکانیں کھولنے کے فیصلہ سے یہاں کی آبادی کو مزید پریشانی اور مصیبت میں دھکیل رہی ہے۔
انہوں نے سرکاری پر زورد دیا کہ سرکار اپنے گول مول بیانات کے بغیر اس حکمنامے کوفورا واپس لے ورنہ یہاں کا ہر ایک طبقہ سڑکوں پر آنے کے مجبور ہوجائے گا۔واضح رہے جموں وکشمیر میں اس وقت مجموعی طور 224شراب کی دکانیں موجود ہیں، جن میں 220جموں میں ہیں جبکہ کشمیر صوبہ میں ان دکانوں کی تعداد 4 ہیں