ETV Bharat / state

شوپیاں تصادم: چارج شیٹ کیا کہتی ہے؟ - احمد کی ہلاکت

گزشتہ برس شوپیاں کے امشی پورہ علاقے میں ہوئے فرضی تصادم کے دوران تین عام شہری ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد راشٹریہ رائفلز کے ایک کپتان کے خلاف پولیس نے معاملہ درج کر کے کاروائی عمل میں لائی ہے۔

shopian gunfight
شوپیاں تصادم
author img

By

Published : Jan 20, 2021, 2:30 PM IST

پولیس کی جانب سے دائر کی گئی چارج شیٹ میں کئی باتیں سامنے آئيں ہیں۔

چارج شیٹ کے مطابق 18 جولائی 2020 کو ہوئے فرضی تصادم سے ایک روز قبل فوج کے کپتان بھوپندرا سنگھ کی جانب سے دیگر دو ملزمین کے درمیان 200 فون کالز ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ فرضی ناموں پر دو سم کارڈز بھی فروخت کیے گئے ہیں۔ ہلاک شدہ افراد کو ہلاکت سے قبل کافی عرصے تک پیدل چلایا گیا۔

چارج شیٹ میں پولیس نے کپتان بھوپندرا سنگھ اور دو مقامی باشندگان، تابش نذیر ملک اور بلال احمد لون کو تین عام شہری، امتیاز احمد، ابرار احمد اور ابرار احمد کی ہلاکت کے لئے ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس وقت معاملہ کشمیر کی ایک زیریں عدالت میں زیر سماعت ہے اور معاملے کی آخری سنوائی گزشتہ مہینے میں ہوئی تھی۔

واضح رہے کی گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں فوج نے اس معاملے کے حوالے سے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'فوجی اہلکاروں نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ کا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا ہے اور قصوروار افراد کے خلاف کروائی عمل میں لائی جا رہی ہے'۔

پولیس کی چارج شیٹ کے مطابق کپتان بھوپندرا سنگھ نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ پہلے تین عام شہریوں کو اغوا کیا پھر ہلاک کیا اور آخر میں ان کی لاشوں کے پاس ہتھیار رکھ دیے۔ اندازہ ہے کہ یہ انہوں نے رقومات حاصل کرنے کے لیے کیا۔

چارج شیٹ، جس کی ایک نقل ای ٹی وی بھارت کے پاس بھی ہے، میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کپتان بھوپندرا سنگھ دو مقامی ساتھیوں کے ساتھ تین الگ الگ فون نمبروں سے رابطے میں تھے۔ ان تین نمبروں میں سے دو فرضی ناموں (بشیر احمد کسانا اور خورشید احمد شیخ ) کے نام اجراء کے گئے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ کپتان بھوپندرا سنگھ کا آپریشنل نام بشیر خان تھا اور وہ گزشتہ برس جنوری کے مہینے سے ہی دیگر دو ملزمین کے ساتھ رابطے میں تھا۔ تاہم فرضی تصادم سے قبل جون کے مہینے میں تینو ں ملزمین کے درمیان فون پر بات چیت کا سلسلہ کافی بڑھ گیا۔ چارج شیٹ کے مطابق 'جون مہینے کی 16 تاریخ سے لے کر تصادم کے دن تک کپتان بھوپندرا سنگھ نے لون کو 190 مرتبہ فون کیا جبکہ جون 23 سے جولائی 16 تک دونو ں کے درمیان 91 بار بات چیت ہوئی ہے۔

ہتھیار کہاں سے آئے؟ یہ سوال جتنا آسان پوچھنا ہے اتنا ہی ثابت کرنا مشکل ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق کپتان بھوپندرا سنگھ نے سرینگر میں واقع کارگو میں تعینات ایک سینئیر پولیس افسر سے ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم ملاقات ممکن نہیں ہو پائی۔ کپتان بھوپندرا سنگھ نے ملک کو ہتھیاروں کا بندوبست کرنے کے لئے ہراساں بھی کیا۔ تاہم پھر کیسے ہتھیار حاصل کے گئے اس کا ذکر چارج شیٹ میں واضح نہیں ہے اور پولیس کی مزید تحقیقات جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شوپیان تصادم: عسکریت پسند یا نہتے نوجوان؟

چارج شیٹ کے مطابق جولائی مہینے کی 17 تاریخ کو لون اور ملک کپتان بھوپندرا سنگھ سنگھ سے ملنے ایک آلٹو گاڑی میں فوجی کیمپ گئے۔ وہاں سے دوسری گاڑی میں تصادم کی جگہ گئے۔ چارج شیٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 'کپتان بھوپندرا سنگھ، ملک اور لون نے پھر تین ہلاک کیے گئے افراد کو اغوا کیا اور تقریباً 6 منٹ تک پیدل چلا کر میوہ باغات میں ہلاک کیا گیا۔

پولیس کی جانب سے دائر کی گئی چارج شیٹ میں کئی باتیں سامنے آئيں ہیں۔

چارج شیٹ کے مطابق 18 جولائی 2020 کو ہوئے فرضی تصادم سے ایک روز قبل فوج کے کپتان بھوپندرا سنگھ کی جانب سے دیگر دو ملزمین کے درمیان 200 فون کالز ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ فرضی ناموں پر دو سم کارڈز بھی فروخت کیے گئے ہیں۔ ہلاک شدہ افراد کو ہلاکت سے قبل کافی عرصے تک پیدل چلایا گیا۔

چارج شیٹ میں پولیس نے کپتان بھوپندرا سنگھ اور دو مقامی باشندگان، تابش نذیر ملک اور بلال احمد لون کو تین عام شہری، امتیاز احمد، ابرار احمد اور ابرار احمد کی ہلاکت کے لئے ذمہ دار قرار دیا ہے۔ اس وقت معاملہ کشمیر کی ایک زیریں عدالت میں زیر سماعت ہے اور معاملے کی آخری سنوائی گزشتہ مہینے میں ہوئی تھی۔

واضح رہے کی گزشتہ برس ستمبر کے مہینے میں فوج نے اس معاملے کے حوالے سے اپنا بیان جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'فوجی اہلکاروں نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاورس ایکٹ کا ضرورت سے زیادہ استعمال کیا ہے اور قصوروار افراد کے خلاف کروائی عمل میں لائی جا رہی ہے'۔

پولیس کی چارج شیٹ کے مطابق کپتان بھوپندرا سنگھ نے اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ پہلے تین عام شہریوں کو اغوا کیا پھر ہلاک کیا اور آخر میں ان کی لاشوں کے پاس ہتھیار رکھ دیے۔ اندازہ ہے کہ یہ انہوں نے رقومات حاصل کرنے کے لیے کیا۔

چارج شیٹ، جس کی ایک نقل ای ٹی وی بھارت کے پاس بھی ہے، میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ کپتان بھوپندرا سنگھ دو مقامی ساتھیوں کے ساتھ تین الگ الگ فون نمبروں سے رابطے میں تھے۔ ان تین نمبروں میں سے دو فرضی ناموں (بشیر احمد کسانا اور خورشید احمد شیخ ) کے نام اجراء کے گئے تھے۔

قابل ذکر ہے کہ کپتان بھوپندرا سنگھ کا آپریشنل نام بشیر خان تھا اور وہ گزشتہ برس جنوری کے مہینے سے ہی دیگر دو ملزمین کے ساتھ رابطے میں تھا۔ تاہم فرضی تصادم سے قبل جون کے مہینے میں تینو ں ملزمین کے درمیان فون پر بات چیت کا سلسلہ کافی بڑھ گیا۔ چارج شیٹ کے مطابق 'جون مہینے کی 16 تاریخ سے لے کر تصادم کے دن تک کپتان بھوپندرا سنگھ نے لون کو 190 مرتبہ فون کیا جبکہ جون 23 سے جولائی 16 تک دونو ں کے درمیان 91 بار بات چیت ہوئی ہے۔

ہتھیار کہاں سے آئے؟ یہ سوال جتنا آسان پوچھنا ہے اتنا ہی ثابت کرنا مشکل ہے۔ چارج شیٹ کے مطابق کپتان بھوپندرا سنگھ نے سرینگر میں واقع کارگو میں تعینات ایک سینئیر پولیس افسر سے ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کی تاہم ملاقات ممکن نہیں ہو پائی۔ کپتان بھوپندرا سنگھ نے ملک کو ہتھیاروں کا بندوبست کرنے کے لئے ہراساں بھی کیا۔ تاہم پھر کیسے ہتھیار حاصل کے گئے اس کا ذکر چارج شیٹ میں واضح نہیں ہے اور پولیس کی مزید تحقیقات جاری ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شوپیان تصادم: عسکریت پسند یا نہتے نوجوان؟

چارج شیٹ کے مطابق جولائی مہینے کی 17 تاریخ کو لون اور ملک کپتان بھوپندرا سنگھ سنگھ سے ملنے ایک آلٹو گاڑی میں فوجی کیمپ گئے۔ وہاں سے دوسری گاڑی میں تصادم کی جگہ گئے۔ چارج شیٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ 'کپتان بھوپندرا سنگھ، ملک اور لون نے پھر تین ہلاک کیے گئے افراد کو اغوا کیا اور تقریباً 6 منٹ تک پیدل چلا کر میوہ باغات میں ہلاک کیا گیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.