دی پولِس پروجیکٹ اور سٹینڈ وِتھ کشمیر کی جانب سے کشمیر میں حالیہ دنوں صحافیوں پر درج کئے گئے مقدمات کے پیش نظر اس سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں کئی سرکردہ مصنفین اور صحافیوں نے حصہ لیا اور "صحافت جرم نہیں ہے" کے عنوان پر تبادلہ خیال کیا -
زوم ایپلیکیشن کے ذریعے منعقدہ یہ پروگرام یوٹیوب اور فیس بک پر براہ راست نشر کیا گیا اس بحث و مباحثے میں کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی جے پی) کی ایشیاء کی سینئر ریسرچر عالیہ افتخار، دی پولس پروجیکٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور معروف وکیل سوچترا وجیان کے علاوہ جموں وکشمیر کے معروف صحافی پرویز بخاری نے بحیثیتِ پینلسٹ کے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا جبکہ جواں سالہ خاتون صحافی رُوا شاہ پروگرام کی نظامت کررہی تھیں -
ایک گھنٹے کے قریب چلنے والے اس مباحثے کے دوران مذکورہ مقررین نے جموں و کشمیر میں آزادی صحافت اور اظہار رائے پر تبادلہ خیال کیا-
اس دوران پرویز بخاری نے کہا کہ 'کشمیر میں صحافیوں کے لیے مشکلات پہلے سے تھے تاہم گزشتہ سال اگست کے مہینے میں جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد سے صحافیوں کے لئے کشمیر میں کام کرنا دشوار کن بنتا جا رہا ہے-'
عالیہ افتخار نے اس دوران کشمیر میں صحافت اور صحافیوں کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہوئے کئی اہم نکات کی جانب اشارہ کیا ۔ انہوں نے کہا کہ ''کشمیر میں جو صحافی اس وقت قید میں ہیں دوسرے معنوں میں سزائے موت کا سامنا کررہے ہیں کیونکہ دنیا اس وقت صحت و سلامتی کے حوالے سے ایک بحران کا شکار ہے''-
سوچترا وجیان کا کہنا تھا کہ ''کشمیر میں انٹرنیٹ پر پابندی عائد کرنے سے پہلے آپ نے انہیں کہانیوں کو بیان کرنے کی صلاحیت سے محروم کیا کیونکہ یہاں پر مواصلاتی نظام مکمل طور پر ٹھپ تھا اب جبکہ 2 جی انٹرنیٹ کی سہولیات میسر ہے اس کے باوجود صحافی سامنے آرہے ہیں اور کہانیاں بیان کرتے ہیں یہ اپنے آپ میں ایک مزاحمتی عمل ہے جس کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے-''
مقررین کا ماننا تھا کہ کشمیر میں صحافیوں کو درپیش مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جس طرح سے ان پر مقدمات درج کئے جارہے ہیں وہ اصل میں انہیں ہراساں کرنے اور کشمیر میں حکومتی پالیسیوں کی مخالفت میں اٹھنے والی آواز کو دبانے کی ایک مذموم کوشش ہیں جس کے برے نتائج نکل سکتے ہیں -
خیال رہے کہ کشمیر میں حالیہ دنوں تین صحافیوں پر مختلف نوعیت کے مقدمات درج کئے گئے جس میں دو صحافیوں پر انسدادِ دہشت گردی یو اے پی اے بھی شامل ہیں -
واضح رہے کہ مسرت زہرہ نامی خاتون فوٹو جرنلسٹ پر سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز مواد شائع کرنے کے خلاف سائبر پولیس نے مقدمہ درج کیا جبکہ معروف صحافی، مصنف و تجزیہ کار گوہر گیلانی پر بھی اسی ایکٹ کے تحت ایف آئی آر درج کیا گیا ہے اس کے علاوہ دی ہندو اخبار کے نامہ نگار پیرزادہ عاشق پر بھی اس سے قبل ایک ایف آئی آر درج کیا گیا جس پر کشمیر میں صحافتی انجمنوں اور سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل کا اظہار کیا گیا۔