کشمیر وادی میں 18 مارچ کو ایک 65سالہ معمر خاتوں کا کرونا وائرس ٹیسٹ مثبت آنے کے ساتھ ہی اگلے دن یعنی 19 مارچ سے کشمیر میں بندشیں عائد کرتے ہوئے تمام تعلیمی، کاروباری، تجارتی اور دیگر سرگرمیوں پر روک لگا دی گئی اور پھر 5 روز بعد ملک گیر لاک ڈائون کا نفاذ عمل میں لایا گیا۔ جس کو جاری رکھتے ہوئے کئی بار توسیع بھی عمل میں لائی گئی ہے۔
وہیں اس جاری لاک ڈائون کے باعث شعبہ سیاحت اور ٹرانسپورٹ سے جڑے افراد اور دیگر تجارت پیشہ لوگ بالخصوص مزدور طبقے میں ذرائع آمدن بند ہونے سے جہاں ایک طرف گھروں کا چین و سکون کھو گیا ہے وہیں اب موجودہ صورتحال کے چلتے غریب طبقہ کے لوگ مالی تنگی سے جوجھتے ہوئے ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
مزدوری کرنے والے،کارخانوں اور فیکٹریوں میں کام کر رہے افراد بے روزگار ہوگئے ہیں۔ جبکہ ریڈی بانوں، چھاپڑی فروشوں اور سیلز مین کا کام چھن جانے سے تناؤ بڑھنے کے ساتھ ہی ان کی ذہنی صحت پر برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔جس وجہ سے اب ذہنی مریضوں کی تعداد میں مزید اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ اگر صورتحال ایسی رہی تو آنے والے وقت میں ذہنی تکالیف مزید سنگین رخ اختیار کر سکتے ہیں۔
اقتصادی اور معاشی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے مختلف نجی اور سرکاری اداروں کے مطابق جموں وکشمیر کی معیشت کو روزانہ کروڑوں کا خسارہ ہو رہا ہے۔ صنعت و حرفت سے لےکرسیاحت اور باغبانی تک کے شعبہ جات کو قابل تلافی نقصانات سے دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ وہیں ہزاروں کی تعداد میں افراد بے کاری اور بے روزگاری کی مار جھیل رہے ہیں۔