شورش زدہ وادی کشمیر میں گزشتہ تین دہائیوں سے جاری نا مساعد حالات اور اب لاک ڈائون کے سبب لوگ خاص کر نوجوان ذہنی امراض میں مبتلا ہو رہے ہیں۔
ماہرین نفسیات کا ماننا ہے کہ وادی کشمیر میں مسلسل لاک ڈائون، غیر یقینیت اور اقتصادی حالات کے سبب نوجوان اور اب بچے بھی ذہنی تنائو کے شکار ہو رہے ہیں۔
ماہر نفسیات ڈاکٹر جنید نبی کا کہنا ہے کہ ’’گزشتہ برس لاک ڈائون کے پیش نظر (ذہنی) مریض فون اور ہیلپ لائن کے ذریعے ماہرین سے رابطہ کرتے تھے کیوں کہ لوگوں کو عالمی وبا کے پیش نظر گھروں سے نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ وہیں رواں برس لاک ڈائون میں نرمی کے بعد روزانہ تقریباً 250 مریض ملاحظہ کے لیے اسپتال کا رخ کرتے ہیں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ملاحظہ کے لیے آنے والے مریضوں میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہیں ذہنی دبائو کے سبب خودسوزی کے خیالات بھی آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر میں مختلف وجوہات کے سبب خودکشی کے واقعات میں بھی ہوشربا اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
طلبہ میں نفسیاتی دبائو کے متعلق انہوں نے کہا کہ ’’وبا کے دوران طلبہ چار دیواری کے اندر قید ہو گئے ہیں، دوستوں اور رفقاء کی دوری، موبائل و گیجٹس کے بے تحاشا استعمال کے سبب وہ بھی ذہنی تنائو کے شکار ہو رہے ہیں تاہم ایسے میں والدین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ضرورت سے زیادہ الیکٹرانک آلات کا استعمال نہ کرنے دیں، اور ان کے ساتھ پیار و محبت کے ساتھ بات کریں اور ان کے ساتھ وقت بتائیں۔‘‘
ماہر نفسیات پروفیسر یاسر رتھر کا کہنا ہے کہ ’’لاک ڈائون کے دوران ذہنی تنائو کے شکار ہوئے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔‘‘ انہوں نے بھی نا مساعد اور اقتصادی حالات کو ذہنی تنائو کی اہم وجوہات بتائیں۔
اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’’وادی میں بڑھتے خودکشی کے معاملات بھی ذہنی تنائو میں اضافے کی ایک علامت ہے۔‘‘
لاک ڈائون کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ ’’وائرس کے پھیلائو کو کم کرنے کے لیے لاک ڈائون ناگزیر ہے، تاہم اس کے سبب ذہنی امراض میں بھی اضافہ ہوا ہے۔‘‘
طلبہ میں بڑھتی جارحیت کے حوالے سے انہوں نے والدین کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ محبت و شفقت کے ساتھ پیش آئیں اور ان کے ساتھ وقت صرف کریں۔